انتقام کی سیاست کا شکار ہونے والی شخصیت

Hussain Shaheed

حسین شہید سہروردی کی زندگی تاریخ کے آئینے میں

 

حسین شہید سہروردی پاکستان کے ایک مشہور سیاستدان تھے اوران کو وکالت میں بھی اچھا تجربہ حاصل تھا۔یہ ایک مختصر عرصہ کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔حسین شہید سہروردی کو ۱۹۵۶سے لے کر ۱۹۵۷ تک وزیر اعظم کا قلمدان سونپا گیا۔یہ قائداعظم محمد علی جناح کے پسندیدہ شخص تھے،ان کا شمار اس وقت کے پڑھے لکھے اور علمو فضل والے لوگوں میں ہوتا تھا۔

 

ابتدائی زندگی

 

حسین شہد سہروردی ۸ ستمبر ۱۸۹۲ کو مغربی بنگال میں ایک مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔یہ کلکتہ ہائی کورٹ کے معروف جج زاہ سہروردی کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔آ پ کی والدہ خجستہ اختر بنوں اردو ادب اور فارسی کی ایک نام نگار سکالر تھیں۔ انہوں نے سینٹ زیورس  سے ریاضی میں بی ایس کیااور پھر کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ آرٹس میں داخلہ لیا۔۱۹۱۳ میں حسین سہروردی نے عربی میں ایم اے کیا اور بیرون ملک تعلیم کے لیے سکالرشپ حاصل کی پھر انہوں نےانگلینڈ سے سول لا میں گریجوایشن کی اورکلکتہ واپس آ کر ہائی کورٹ سے اپنی پیکٹس کا آغاز کیا۔

 

۱۹۲۰ میں حسین شہید سہروردی نے بنگالی وزیر داخلہ سر عبدالرحیم کی بیٹی بیگم نیاز فاطمہ سے شادہ کر لی  جس سے ان کا ایک بیٹا احمد شہاب سہروردی اور ایک بیٹی اختر سلیمان پیدا ہوئے۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد انہون نے ماسکو کی آرٹ تھیٹر کی اداکارہ  ویرہ الیگزینڈر روینا سے شادی کی جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر کے اپنا نام بیگم نور جہاں رکھ لیا۔

 

سیاسی اور نجی زندگی

 

حسین شہید بہت کم مدت کے لیے پاکستان کے وزیراعظم مختص ہوئے چونکہ اُس وقت کے صدرِ  پاکستان ان کے خلاف تھے مگر صدر  کو حالات کے مطابق فیصلہ کرنا  پڑ ا۔سہروردی کی سوانح عمری میں یہ با ت واضح ہے کہ چوہدری محمد علی کی وزارت  کے خاتمے کے بعد صدمے کے بعد د علی کی وزارت کے بعدر کو مجبور کیا کہ وہ  سہر وردی کو بطور وزیر اعظم تسلیم کریں جس کی وجہ سے صدر کو  صورتحال کے مطابق فیصلہ کرنا  پڑا ۔ شائستہ اکرام سہروردی نے اپنی کتاب مین حسین شہید سہروردی کی سیاسی زندگی کے بارے میں کئی دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔اس کتاب سے ہندوستان کی تقسیم سے لے کران کی سیاسی کاوائیوں کے بارے میں آگاہی حاصل ہو سکتی ے۔ اس کتاب میں حسین شہید سروردی کے صدر اسکندر مرزا کے ساتھ وزیراعظم بننے سے پہلے اور بننے کے بعد کے تعلقات کی تفصیل درج ہے۔

 

حسین شہید سہروردی کھانے ،کھلانے اور محفل لگانے کے بہت شوقین تھے۔ان ے دور میں وزیراعظم ہاوس میں ۱۰۰ سے لے کر ۲۰۰ افراد تک کی دعوتیں ہوا کرتی تھیں۔ ذرائع سے پتا چلتا ہے کہ ان پارٹیوں میں شراب کژت سے استعمال ہوتی تھی۔ سہرروردی بھی شراب کے شوقین تھے مگرانہون نے کسی بیماری کے باعث چھوڑ دی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب تک وہ وزیراعظم ہاوس میں بطور وزیراعظم رے تب تک انہوں نے شراب نوشی سے سخت گریز کیا۔

 

اسکندر مرزا اور سہروردی کے تعلقات بہت اچھے تھے مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اسکندر مرزا نے تعلقات کے باوجود ان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ کچھ لکھاری ایک واقعہ کافی جگہ بیان کرتے ہیں، سہروردی کے ملازم مجید نے ان کی شرافت کے بارے میں انکشاف بہت سال پہلے کر دیا تھا۔ اسکندر مرزا اپنی بیگم ے ہمراہ سہروردی صاحب کے پاس ایک محفل سجا کے بیٹھے ہوئے تھے۔ محفل ختم ہونے  کے بعد اسکندر مرزا اور باقی احباب اپنے گھر روانہ ہوگئے اور سہروردی بھی اپنے کمرے میں چلے گئے۔ مجید کہتا ہے کہ میں جس طرح واپس ہال میں پہنچا تو دیکھا کہ ایک عورت صوفے ہر اس قدر بے ہوش پڑی ہے کہ اس کو اپنے لباس تک کی فکر نہیں۔ مجید آگے گیا تو پہچان گیا کہ یہ بیگم اسکندر مرزا ہیں۔ وہ بھاگتا ہوا سہروردی کے پاس گیا اور بتایا کہ بیگم اسکندر مرزا ادھر ہی رہ گئی ہیں۔ سہروردی صاحب آئے اور بیگم صاحبہ کے کپڑے درست کر کے ان کو خود گھر تک چھوڑنے گئے۔

 

سہروردی ایک ذہین اور پع اعتماد سیاستدان تھے۔ جناح صاحب خود چاہتے تھے کہ وہ مسلم لیگ کا حصہ بن کے بنگال کی طرف سے قیا دت سنبھالیں جو ککہ سہروردی نے کر کے دکھایا اور جناح صاحب کی توقعات پر پورا اترے۔ سہروردی کو سیاست کے ساتھ ساتھ فن اور فلم کی دنیا سے بھی بڑا لگائو تھا۔ وہ اکثر فلمی ستاروں سے ملاقات کیا کرتے تھے۔چونکہ ان کو فوٹو گرافی کا بھی بہت شوق تھا تو وہ اکثر فلمی ستاروں کی تصاویر خود لیا کرتے تھے۔

 

سہروردی ایک ماہر قانون دان تھے

 

بیگم شائستہ اکرام سہروردی اپنی کتاب میں فرماتی ہیں کہ حسین صرف ایک اچھے سیاست دان ہی نہیں بلکہ ایک قابل وکیل بھی تھے۔ وہ عدالت میں اپنے حریفوں کے سامنے ثبوت کے ساتھ ساتھ اشعار کا بھی استعمال کرتے تھے جن سے اگلے کا حوصلہ پست ہو جاتا تھا۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے ہی خلاف کیسز پر خود کی پیروی کرتے تھے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ عدالتوں میں ان کی کارکردگی وکالت کے لیے ایک مثال ہوتی تھی۔ لوگ دور دور سے سہروردی کے دلچسپ دلائل سننے آیا کرتے تھے۔ سہروردی اک عظیم وکیل تھےمگروہ صرف روزگار کے لے وکالت کرتے تھے۔ پاکستان کی سیاست انتقامی موڑ پر جب آجاءے تو بڑوں بڑوں کو نہیں چھوڑتی اور یہی حسین شہید سہروردی کے ستھ ہوا جب حکومت ان کے خلاف ہو گئی۔ انہوں نے دوبارہ وکالت شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو بھی ان کو بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑھا۔

 

پاک چین تعلقات

 

حسین شہید سہروردی کو پاک چین دوستی کا معمار بھی کہا جاتا ہے وہ پاکستان کے پہے سربراہ تھے جنہوں  نے چین جا کر پاکستان اور چین کے تعلقات پر زور دیا۔ انہی کے دورِ حکومت میں چینی وزیر اعظم چو این لائی نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا۔ ان اقدامات کی بدولت آج چین اور پاکستان کی دوستی اس خطے کے باقی ملکوں کے لیے ایک مثال ے۔

 

حسین شہید سہروردی کی موت کا راز؟

 

حسین شہید سہروردی کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ وہ اس وقت لبنان کے شہر بیروت کے ایک ہوٹل میں تشریف فرماں تھے۔ کچھ بنگالیوں کا ماننا ہے کہ اس موت کے یچھے ایوب خان کا ہاتھ تھا کیونکہ سہروردی کافی حد تک ایوب خان کو صدارتی انتخابات میں سرپرائز دینے والے تھے۔ حسین شہید سہروردی کا شمار بیسوی صدی کے عظیم بنگالی رہنمائوں میں ہوتا ہے۔


 

user

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+