وہ عام عادت جو آپ کو کمر درد کا شکار بناتی ہے
- 04, اکتوبر , 2024
نیوز ٹوڈے : اگر آپ کمر کے درد میں مبتلا ہیں تو آپ اکیلے نہیں ہیں، ہر 5 میں سے 4 افراد اپنی زندگی میں اس مسئلے کا سامنا کریں گے۔کمر کا درد بہت سے لوگوں کے لیے روزمرہ کی سرگرمیوں کو مشکل بنا دیتا ہے۔زیادہ تر لوگوں کی ایک عام عادت انہیں کمر درد کا شکار بنا دیتی ہے۔زیادہ وقت بیٹھے رہنے سے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ بات فن لینڈ میں کی گئی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔یونیورسٹی آف ٹورکو کی تحقیق میں بتایا گیا کہ دن میں زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے سے اس عام مسئلے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں دن بھر میں اوسطاً صرف 40 منٹ بیٹھنے کے وقت کو کم کرنا اس سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔اس تحقیق میں موٹے افراد کو بھی شامل کیا گیا جو کمر کے درد کا بھی سامنا کر رہے تھے۔
6 ماہ کے مطالعے کے دوران، مضامین کے روزانہ بیٹھنے کے وقت میں اوسطاً 40 منٹ کی کمی واقع ہوئی۔بیٹھنے کا وقت کم کرنے سے کمر درد کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملی۔محققین نے کہا کہ زیادہ وقت بیٹھنے سے جسمانی وزن اور چربی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے کمر درد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ اکثر کمر درد کا سامنا کرتے ہیں تو بیٹھ کر گزارنے والے وقت کو کم کریں۔ان کا کہنا تھا کہ چہل قدمی جیسی جسمانی سرگرمیاں کمر کے درد سے بچانے کے لیے زیادہ موثر ہیں۔
اس سے قبل جون 2024 میں آسٹریلیا کی میکوری یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ چہل قدمی کو عادت بنانے سے کمر درد سے بچا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق میں 701 بالغ افراد کو شامل کیا گیا جنہوں نے ماضی میں کمر درد کا تجربہ کیا تھا۔
انہیں 3 گروپوں میں تقسیم کیا گیا، ایک کو واکنگ پروگرام کا حصہ بنایا گیا، دوسرے کو فزیو تھراپی کلاسز میں بھیجا گیا جبکہ تیسرے کو نارمل زندگی گزارنے کی ہدایت کی گئی۔تینوں گروپوں کی سرگرمیوں کو 6 ماہ تک برقرار رکھا گیا، جس کے بعد 1 سے 3 سال تک ان کی صحت کا جائزہ لیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ پیدل چلنے سے کمر درد کا سامنا کرنے کا خطرہ کافی حد تک کم ہو جاتا ہے۔محققین نے بتایا کہ پیدل چلنے والے گروپ میں 208 دنوں تک کمر درد کی تکرار نہیں ہوئی، جبکہ فزیو تھراپی گروپ میں شامل افراد کو 112 دن تک نہیں ہوا۔
محققین کو امید ہے کہ ان نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے پیدل چلنے کو کمر درد کے مریضوں کے معمولات میں شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ کمر کے درد سے بچا جا سکے۔اس تحقیق کے نتائج جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے۔
تبصرے