عالمی چیمپئن احسن رمضان مشکلات کا شکار

 

پاکستان کا کم عمر نوجوان احسن رمضان  عالمی چیمپئن بننے کے بعد بھی  پاکستان میں مشکلات کا شکار ہے۔ یہ بچہ کم عمری میں پاکستان کے لیے تاریخ تو رقم کر گیا مگر پاکستان شاید اس کو وہ مقام نہ دے سکا جس کا یہ مستحق ہے۔ سولہ سالا احسن رمضان پاکستان کو سنوکر  کے کھیل میں بہت بڑا  اعزاز بخش چکا ہے جب اس نے ایران کے ایک کھلاڑی کو  چھوٹی عمر ہونے کے باوجود اچھا مقابلہ کر کے شکست دی تھی۔

 

احسن رمضان کو اپنی ماضی کی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا جس میں سنوکر کھیلنا ، پڑھنا ، رہنا اور کھانا پینا شامل ہے۔احسن ورلڈ  چیمپئن بننے سے پہلے بھی انہی حالات سے دوچار تھا اور ورلڈ چیمپئن بننے کے باوجود بھی وہ اس سب کا سامنہ کر رہا ہے۔احسن سارا دن سنوکر کلب میں رہتا ہے اور یہیں وہ اپنی  تمام   نجی کاروائیاں سرانجام دیتا ہےچاہے وہ کھانا پینا ،سونا  یا پریکٹس کرنا ہو۔ احسن اپنے نازک مالی حالات کی وجہ سے پہلے ہی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہا ہے مگر اس کا کہنا تھا کہ اگر حالات اب بھی ایسے رہے تو اس سب کا اثر اس کی  سنوکر کھیلنے کی قابلیت پر پڑ سکتا ہے۔

 

کم عمر احسن رمضان اپنے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد  کلب ٹورنامنٹ جیت کر اپنے خرچے پورے کرتا ہے،اس کا کہنا تھا کہ عالمی چیمپئن شپ جیتنے کے بعد پچھلی حکومت نے کافی یقین دہانی کروائی تھی کہ اس کے انعامات اور  اعزازات  کے تحفظ کی ذمہ داری  ہماری ہے مگر کسی نے کچھ خاص توجہ نہ دی اور نہ ہی اس کھیل اور اس کے کھلاڑیوں کے لیے اقدامات کیے۔

 

احسن کا کہنا تھا کہ اب بہت حد تک معالات بدل چکے ہیں ۔ ورلڈ چیمپئن بننے کے بعد جو انعامات وصول ہوئے ان سے میری زندگی تو گزر رہی ہے مگر جہاں تک مستقبل کی بات ہے تو وہ تب ہی مضبوط ہو گا جب  حکومت ہم پر توجہ دے گی۔احسن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہاں پر بہت سے لوگ ہیں جو اس کھیل کو سمجھتے ہیں ،پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے قدرتی کافی ٹیلنٹ پیدا کیا ہے مگر اس ٹیلنٹ کی قدر اور صحیح کوچنگ کرنا بہت ضروری ہے ورنہ ہم مسقبل میں بھی اسی طرح ٹیلنٹ کی بے قدری کر کے اس کو ضائع کر دیں گے ۔احسن نے مزید کہا کہ اب حالات بدل رہے ہیں اسی لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی اپنا رویہ بدلیں  اور اس پر توجہ دیں ورنہ آخری راستہ اس کے پاس انگلینڈ جا کر پروفیشنل سنوکر کھیلنا ہے۔

 

user

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+