امریکہ اور چین تائوان کے مسئلے پر متفق

ایک وقت تھا جب چین اور امریکہ میں گہری دوستی تھی لیکن پچھلے کچھ وقتوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اب حالات ایسے بن چکے ہیں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی وقت جنگ ہو سکتی ہے ۔

 

چین کا کہنا ہے کہ وہ ہر مشکل سے نمٹنے کیلیے تیار ہے اور پھر وہ مشکل چاہے جنگ ہو یا تائوان پر قبضہ ہو کیونکہ امریکہ کے ارادوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آگ یوکرین میں لگی ہوئ ہے امریکہ ویسی ہی آگ چین میں لگانا چاہتا ہے جس طرح یوکرین تباہ ہوا ہے ویسے ہی امریکہ چین کو بھی خاک میں ملانا چاہتا ہے لیکن امریکہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ نہ تو چین یوکرین کی طرح کمزور ہے اور نہ ہی امریکہ کے پاس روس کی طرح ہتھیار ہیں تبھی تو چین بار بار تائوان پر اپنے جنگی طیارے بھیجتارہتا ہے اور امریکہ دیکھتا رہتا ہے کچھ کر نہیں سکتا صرف دھمکیاں دیتا رہتا ہے ۔

 

لیکن اب ایک طرف امریکہ چین کو سبق سکھانا چاہتا ہے تو دوسری طرف چین نے بھی امریکہ کو جواب دینے کی تیاری کر لی ہے دونوں ملکوں کے درمیان جنوبی سمندر اور تائوان کو لے کر سرد جنگ چھڑی ہوئ ہے چین کو لے کر امریکہ دھمکی بھرا انداز اپنا رہا ہے اور چین بھی جنگ کی تیاری میں لگا ہوا ہے ۔

 

روس ، یوکرین جنگ کے بعد اگلا مورچہ جنوبی چینی سمندر میں کھلنے والا ہے دراصل چین اور امریکہ کے اختلافات کی اور بھی کئ وجوہات ہیں جن میں ایک سولومن جزیرہ ہے جو آسٹریلیا کے قریب ہے اور چین اس پر اپنا فوجی اڈہ بنانا چاہتا ہے جو آسٹریلیا کیلیے خطرے کا اشارہ ہے ۔

 

چین کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ اب امریکہ سے اس کے تعلقات دوبارہ کیسے سدھر سکتے ہیں کیونکہ چین جس طرح تائوان کو ڈرا رہا ہے وہ چین کی طرف سے جنگی اشارہ ہے جس پر چین کسی بھی وقت عمل کر سکتا ہے روس نے تو یوکرین پر تین مہینے کا وقت

دے دیا لیکن چین اب ایسا نہیں ہونے دے گا بلکہ چین چند گھنٹوں میں ہی تائوان پر قبضہ کر لے گا ۔

 

مزید پڑھیں: دنیا میں آنے والے مہنگائ کے سیلاب کا ذمہ دار یورپ ہے
 

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+