اٹلی ، فرانس اور جرمنی کے رہنماؤں کو زیلینسکی سے ملاقات کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی

یورپی یونین کے تین ملکوں کے رہنماؤں کی زیلینسکی سے ملاقات ان ملکوں کو  بہت مہنگی پڑ گئ ایک دن پہلے جرمنی ، فرانس اور اٹلی کے رہنما  یوکرین پہنچے اور انھوں نے اپنے یوکرین دورے سے یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ یوکرین کے ساتھ ہیں ۔

 

لیکن روس ، یوکرین جنگ میں ان کی زیلینسکی سے یہ پہلی ملاقات انہیں بہت مہنگی پڑ گئ کیونکہ روس نے ان تینوں ملکوں کے تیل اور گیس کی سپلائ میں کٹوتی شروع کر دی اور یہ کٹوتی آج دوسرے دن بھی جاری رکھی اور یہ ثابت کر دیا کہ جو بھی روس اور یوکرین کے درمیان میں آۓ گا اسے اس کا انجام بھگتنا ہو گا ۔

 

پیوٹن نے سپلائ روک کر یہ ثابت کر دیا کہ یوکرین کے چکر میں یورپ کے ملک اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور اگر ان میں سے کسی اور نے مداخلت کی تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا روس سے آنے والی گیس اور تیل یورپ کیلیے بہت ضروری ہے کیونکہ ان ملکوں کی ضرورت کا بڑا حصہ روس سے آنے والی گیس اور تیل سے پورا ہوتا ہے ۔

 

تیل اور گیس میں کٹوتی ہوتے ہی تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہونا طے ہے پیوٹن نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب یورپی یونین کے ملک پہلے ہی مہنگائ کی مار جھیل رہے ہیں اور اب ان ملکوں میں قیمتیں اور بھی بڑھنے لگی ہیں ۔

 

یہ بات سب جانتے ہیں کہ اگر کسی ملک میں تیل اور گیس نہ ہو تو وہاں مہنگائ بہت بڑھ جاۓ گی اور خطرناک نتائج سامنے آئیں گے لیکن اس کے باوجود یہ ملک اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کیلیے تیار ہیں اور انھوں نے پیوٹن کو دو ٹوک جواب دیا ہے کہ پیوٹن تیل اور گیس کا استعمال ہتھیار کی طرح کر رہے ہیں ان کی دلیل ہے کہ اگر پیوٹن کٹوتی بھی کرے گا تو تو بھی ان کا کام چل جاۓ گا ۔

 

پیوٹن یہ چاہتے ہیں کہ اگر یہ لڑائ صرف روس اور یوکرین کے درمیان ہی رہے اور دوسرے ملک شامل نہ ہوں تو دنیا کی دوسری بڑی فوج بہت جلد یوکرین کو گھنٹوں پر لے آۓ ۔

 

مزید پڑھیں: ڈونباس پر حملے کیلیے رمضان قادروف نے ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+