ارسلان کے باپ کی جان کی قربانی بھی اسے پولیس کے مظالم سے نہ بچا سکی

ملک کا قانون

نیوز ٹوڈے : کہا جاتا ہے کہ ریاست دفن ہو جاتی ہے جب کسی ملک کاقانون اندھا ہو جاتا ہے ہمارے ملک کا قانون اندھا ہی نہیں بلکہ گونگا اور بہرہ بھی ہو چکا ہے سانحہ 9 مئی کی تعداد کو پورا کرنے کیلیے کئی بے گناہ لوگوں کو گرفتار کر کے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اس سانحہ میں ایک چودہ سال کا بچہ ارسلان بھی شامل ہے جس کا سانحہ 9 مئی سے پہلے اپنے والدین کے ساتھ کسی بات پر جھگڑا ہوا خاندان کے لوگوں نے تھانے میں بچے کی شکایت درج کروائی انہی دنوں میں سانحہ 9 مئی کا واقعہ پیش آ گیا اور عسکری ٹاور کے مقدمے میں بچے کو گرفتار کر لیا گیا ۔

دہشتگردی کے مقدمے میں بچے کو جیل بھیج دیا گیا بچے کے والدین نے خوب واویلا کیا پولیس نے ایک نہ سنی اور ڈھائی ماہ تک بچے کو جیل میں رکھنے کے بعد اس بچے کو رہائی ملی لیکن پھر بھی بچے کی جان نہ چھوٹی اور 11 اگست کو پولیس نے بچے کو دوبارہ گرفتار کرنے کیلیے گھر پر چھاپہ مارا گھر کے افراد اور خواتین کو ہراساں کیا گیا اسی اثنا میں ارسلان کے والد کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور وہ انتقال کر گۓ پولیس نے ہٹ دھرمی کی انتہا کر دی اور ارسلان کے والد کے انتقال کے باوجود پولیس ڈٹی ہوئی ہے اور نہم کلاس کے بچے کی دوبارہ گرفتاری کیلیے اس کے گھر والوں کو ہراساں کر رہی ہے ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+