صدر مملکت کی غفلت سے آرمی ایکٹ بل اور آفیشل سیکرٹ بل قانون کاحصہ بن گۓ

صرر مملکت عارف علوی

نیوز ٹوڈے : صدر مملکت عارف علوی نے2 اگست کو ایوان میں منظوری کیلیے پیش کیے جانے والے13 بلوں کو بغیر دستخط کیے واپس بھیج دیا تھا لیکن ان میں سے دو بل جن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ واپس وزیر اعظم ہاؤس نہیں بھیجے گۓ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطا بق کوئی شخص جو ریاست کو نقصان پہنچاتا ہے یا ممنوعہ جگہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتاہے ملکی معلومات دستاویزات اور ملکی املاک کو نقصان پہنچانے والا آئین کے مطابق مجرم ہوگا جس کو تین لاکھ روپے جرمانہ تین سال قید یا یہ دونوں سزائیں ہوں گی پاکستان کے قانون کے مطابق صدر کے پاس کسی بل کے متعلق دو آپشنز ہوتے ہیں یا تو وہ بل کو منظور کرلے یا اعتراض لگا کر نامنظور کرتے ہوۓ واپس بھیج دے اگر صدر بل کے متعلق خاموشی اختیار کر لے تو دس دن کے اندر اندر وہ بل خود بخود ہی منظور شدہ بل تصور کیا جاتا ہے اور وہ بل قانون کا حصہ بن جاتا ہے

اس وقت بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ آفیشل سیکرٹ بل اور آرمی بل مقررہ مدت پوری ہونے پر قانون میں شامل ہو چکے ہیں لیکن آج صدر عارف علوی نے بیان دیا ہے کہ خدا گواہ ہے کہ میں نے ان دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے اور میں نے عملے سے کہا تھا کہ یہ دونوں بل بغیر دستخط کیے واپس بھجوا دیے جائیں بعد میں عملے سے کئی مرتبہ تصدیق بھی کی لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ عملے نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی صدر عارف علوی نے بل سے متاثر ہونے والے افراد سے بھی معافی مانگی صدر مملکت کے بار بار کہنے کے باوجود بل کو واپس نہ بھجوانا قانون کی خلاف ورزی اور بے حرمتی ہے پاکستانی ریاست میں صدر کے حکم کو مقدم مانا جاتا ہے لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اس واقعہ کو صدر مملکت کی غفلت اور دوہری پالیسی قرار دیتے ہوۓ ان سے استعفے کی مانگ کر لی وجہ یہ بتائی کے یہ صدر کے عہدے کے شایان شان نہیں کہ وہ ایسی غفلت کرے انہیں جو اعتراضات تھے بلوں میں لکھ کر واپس بھیج دیتے ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+