نیا بجٹ: لوگ الرٹ، مزید ٹیکسوں میں اضافے کے لیے تیار

نئے ٹیکسز

نیوز ٹوڈے :  قوی امکان ہے کہ آئندہ مالی سال میں پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کا ریلیف عوام تک نہیں پہنچایا جائے گا، اس کے علاوہ بجٹ میں مزید نئے ٹیکسز بھی لگائے جائیں گے۔

اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر مہر بخاری نے اپنا ماہرانہ تجزیہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ پیش کرنے سے دو روز قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود کو 6 بار 22 فیصد پر برقرار رکھنے کے بعد بالآخر شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کمی کا اعلان کیا۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں آج شدید مندی دیکھی گئی جس کے بعد کے ایس ای ہینڈریڈ انڈیکس 501 پوائنٹس کی کمی سے 73 ہزار 252 پوائنٹس پر بند ہوا۔اس حوالے سے مانیٹری پالیسی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شرح سود میں کمی مہنگائی کی شرح میں کمی کے باعث کی گئی ہے جس کے بعد بنیادی شرح سود 22 فیصد سے کم ہوکر 20.5 فیصد ہوگئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اقتصادی کونسل کے اجلاس میں سالانہ پلان کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ 13ویں 5 سالہ پلان کی منظوری دی گئی اور اقتصادی ترقی کا ہدف اوسطاً 5.1 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔مہر بخاری کے مطابق یہ رقم ایسے وقت میں ترقیاتی بجٹ میں رکھی گئی ہے جب آئی ایم ایف ترقیاتی بجٹ میں کمی کا مطالبہ کر رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گا۔

آئی ایم ایف کے مذاکرات میں جانے سے قبل حکومت نے گزشتہ ٹیکس استثنیٰ کو برقرار رکھتے ہوئے ٹیکس اہداف میں اضافہ کردیا، ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس کا ہدف 12 ہزار 990 ارب روپے رکھا جائے گا جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ . یعنی عوام کو 40 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، مذکورہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے کی جیبوں سے نکالا جائے گا۔

اس کے علاوہ ذرائع کے مطابق حکومت ابتدائی مراحل میں پیٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم لیوی میں 20 روپے فی لیٹر اضافہ کرسکتی ہے۔

مہر بخاری کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال فنانس بل میں سیلز ٹیکس کی تمام چھوٹ ختم کرنے کی بھی تجویز ہے، سیلز ٹیکس چھوٹ کے خاتمے سے تقریباً 550 ارب روپے اضافی ریونیو متوقع ہے۔اضافی ٹیکس ہدف کو پورا کرنے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح کو 18 سے بڑھا کر 19 فیصد کرنے کی توقع ہے اور 100 ارب روپے کا اضافی ریونیو متوقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کے علاوہ حکومت کمرشل امپورٹرز پر عائد ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ کرکے 50 ارب روپے اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ تمام اقدامات آئی ایم کے طویل المدتی پروگرام کے حصول کے لیے کر رہا ہے تاہم اب تک مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔

یاد رہے کہ کسی بھی حکومت کو اپنی آمدن بڑھانے کے لیے مختلف شعبوں میں ٹیکس لاگو کرنا پڑتا ہے اور اگر یہ کافی نہیں تو ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی دولت (جی ڈی پی) کا 10 فیصد سے بھی کم ٹیکسوں میں جمع ہوتا ہے۔ جس کا بڑا حصہ تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے۔

user

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+