افغانستان میں طالبان کے عورتوں پر انوکھے قوانین کا زبردستی اطلاق

       وسیم حسن

 

    امریکہ کی فوج نے افغانستان میں طالبان کو کچلنے کے لیے 20 سال افغانستان میں آپریشن جاری رکھا  لیکن اتنے عرصے میں وہ طالبان کو کچلنے میں ناکام رہے اور 2021 میں امریکی فوج افغانستان سے واپس چلی گئی 2022 میں جب طالبان حکومت دوبارہ بر سر اقتدار آئی  تو انہوں نے افغانی عوام کو یقین دلایا کہ وہ ان کے حقوق کا خیال رکھیں گے لیکن طالبان نے حکومت میں آتے ہی عوام  کے حقوق غصب کرنے میں کوئی  کسر نہیں چھوڑی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے گئے اور اب طالبان نے نیا قانون بنا دیا کہ طلاق یافتہ خواتین یعنی جو عورتیں اپنے خاوند کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر  الگ ہو چکی ہیں یا جن کے شوہر انہیں چھوڑ چکے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ واپس ان کے پاس چلی جائیں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں طالبان حکومت اپنے ان ظالمانہ قوانین کی وجہ سے نہ صرف افغانستان کے لوگوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے بلکہ یہ طالبان  پاکستان اور امریکہ جیسے ملکوں کے لیے  خطرہ بنے ہوئے ہیں افغانستان میں ان کے اقتدار میں آتے ہی کئی اور دہشتگرد جماعتیں سر اٹھانے لگیں ۔

 

    امریکہ  آسٹریلیا اور کئی دوسرے ملک مل کر افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں پاکستان میں بھی طالبان حکومت کے مضبوط ہوتے قدم  اکھاڑنے پر زور دیا جا رہا ہے کیونکہ اگر ان دہشتگرد جماعتوں کو ابھی نہ روکا گیا تو یہ کئی اور ملکوں کے لیے درد سر بنیں گے اس لیے اب پاکستانی میڈیا کا دعوٰی ہے  کہ امریکہ بہت جلد دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کر دے گا   افغانستان کی تحریک طالبان پاکستان جماعت پاکستان  کی حکومت اور فوج  کے لیے ناسور بنی ہے دوسری طرف آئی ایس کے پی بھی یعنی اسلامک سٹیٹ خراسان پروونس  بھی وقتاً فوقتاً پاکستان پر حملے کر رہی ہے  پاکستانی حکومت طالبان حکومت پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی  کے خلاف کوئی کاروائی کرے طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اس لیے طالبان حکومت اور اس کے ساتھی جماعتوں کا خاتمہ ہونے سے پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+