جنگ تو یوکرین میں ہو رہی ہے لیکن سانسیں یورپ کی اٹکی ہوئ ہیں

جنگ کا میدان تو پچھلے چھ مہینوں سے یوکرین بنا ہوا ہے لیکن سانسیں یورپ کی اٹک رہی ہیں کیونکہ یوکرین میں چل رہی جنگ کے پانچ مہینے گزرنے کے بعد اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ روس پر پابندیاں لگانے کی یورپ کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔

 

اب یورپ کے کئ ممالک نۓ نۓ منصوبے بنا رہے ہیں تاکہ گیس کے استعمال کو کم سے کم کیا جا سکے اور تیزی سے ختم ہوتے ہوۓ گیس کے ذخیرے کو بچایا جا سکے اور اس سال یورپ میں آنے والی گرمی کی شدید لہر نے لوگوں کو بوکھلا کر رکھ دیا اوپر سے یورپ جیسے ٹھنڈے ملکوں کے لوگوں کو ایئر کنڈیشنر 27 ڈگری تک سیٹ کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ ان کے ایئر کنڈیشنر کم بجلی کھائیں کیونکہ وہاں بجلی گیس سے بنتی ہے اور اس وقت یورپ میں گیس کی قلت ہے یورپ کے کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ سبھی ملکوں کا یہی حال ہے ۔

 

قدرتی گیس میں پورے یورپ کی جان اٹکی ہوئ ہے اور یورپ کی پریشانی اس لیے بھی بڑھی ہوئ ہے کہ سردیاں آنے والی ہیں اور سردیوں میں گھروں کو گرم رکھنے کیلیے لوگوں کو ہیٹر چلانے کی ضرورت ہو گی کیونکہ یورپ میں اتنی ٹھنڈ پڑتی ہے کہ بنا ہیٹر کے انسان جم ہی جاۓ ۔

 

اسی لیے یورپ کے سبھی ملک آنے والی سردیوں کیلیے گیس کے ذخیرے کو بچا کر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ روس نے یورپ کو دی جانے والی گیس میں سردیاں آنے سے پہلے ہی بھاری کٹوتی شروع کر دی ہے پہلے یورپ کی ٪40 گیس روس سے جاتی تھی لیکن اب روس نے وہ مقدار کم کر کے صرف ٪15 کر دی ہے یعنی پیوٹن نے گیس کی سپلائ میں ٪60 کی کٹوتی کر دی ہے ۔

 

پیوٹن یورپ کا گیس کا ذخیرہ سردیاں آنے سے پہلے ہی خالی کر دینا چاہتے ہیں اسی لیے پورے یورپ کو پریشانی لاحق ہے یورپ کے کئ بڑے ملک گھٹنوں پر آ چکے ہیں جرمنی میں کارخانے بند ہونے تک نوبت آ چکی ہے اور بے روز گاری بڑھ رہی ہے جرمنی میں اب رات کے وقت سڑکوں اور پارکوں میں لائٹیں نہیں جلیں گی ۔

 

فرانس میں بھی ایسے بورڈز کا استعمال نہیں ہو گا جن میں لائٹیں لگی ہوں یورپی یونین میں بھی گیس کا استعمال کم کرنے کی ہدایات دی گئ ہیں اور لوگوں سے اپیل کی گئ ہے کہ قدرتی گیس کا استعمال صرف ضرورت کے وقت کیا جاۓ اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں بجلی بند رکھی جاۓ تاکہ سردیوں کیلیے گیس بچائ جا سکے ۔

 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پابندیاں تو روس پر لگائ گئ ہیں لیکن حالت یورپ کی خراب ہو رہی ہے ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+