یوکرین کی جنگ میں امریکہ کے ہمارس نے پیوٹن کے انداز ہی بدل دیے ہیں

ساڑھے پانچ مہینوں سے یوکرین میں جنگ لڑ رہے پیوٹن اب اپنے ملک کے لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کی لڑائ یوکرین سے نہیں بلکہ امریکہ سے ہو رہی ہے پیوٹن اب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ میں روس اور امریکہ آمنے سامنے ہیں ۔

 

کہا جا رہا ہے کہ پیوٹن اور ان کے سپہ سالاروں نے چند ہفتے قبل سے ہی اپنے ملک میں ایسا ماحول بنانا شروع کر دیا تھا کہ روس کے لوگ یہ جان جائیں کہ امریکہ اس جنگ میں ان کا سیدھا مخالف ہے اور انھوں نے اپنی اس بات پر مہر ثبت کرنے کیلیے امریکہ کے ہی ایک خطرناک ہتھیار کا سہارہ لیا ہے ۔

 

امریکہ کے ملٹی پل راکٹ سسٹم ہمارس نے پیوٹن کے انداز بدل دیے ہیں کیونکہ جنگ کے آغاز میں یہ قیاس لگاۓ جا رہے تھے کہ یوکرین کی فوج روس کے سامنے زیادہ دیر تک ٹِک نہیں پاۓ گی خود پیوٹن کو بھی اس بات کا یقین تھا لیکن ایسا نہیں ہوا چند ہفتوں تک چلنے والی جنگ کئ مہینوں تک چلی گئ یورپی ملکوں سے ملی مدد سے یوکرینی فوج نے روس کو کئ بار پریشان کیا اور روس کے مضبوط قدم بھی اکھاڑ دیے ۔ 

 

اب تک یوکرین کی جنگ میں پیوٹن کیلیے امریکہ کا ہمارس سسٹم وہ واحد رکاوٹ ہے جو روس کے قدم آگے بڑھنے نہیں دیتا اور اس میزائل سے اور اس سے ہونے والے نقصان سے آگاہ کر کے پیوٹن اپنے ملک کے لوگوں کو  یہ یقین دلا رہے ہیں کہ اصل میں ان کی جنگ امریکہ سے ہو رہی ہے روس نے کہا ہے کہ امریکہ کے اس ہتھیار سے یوکرین میں تقریباً سو سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں ۔

 

 ہمارس کی کھیپ یوکرین پہنچنے سے پہلے ڈونباس پر روسی فوج اپنے قدم مضبوط کر چکی تھی لوہانس پر قبضہ کرنے کے بعد روسی فوج تیزی سے ڈونس کے علاقوں کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن اس کے بعد یوکرین کو امریکہ سے ملے ہمارس نے بازی ہی پلٹ دی اور روسی فوج کے تیزی سے بڑھتے قدم وہیں رک گۓ اور روسی فوج ڈونباس کی لڑائ میں ہی الجھ کر رہ گئ ۔

 

یوکرین کا دعوٰی ہے کہ امریکہ نے اب تک بارہ ہمارس یوکرین کی مدد کیلیے بھیجے ہیں اور چار مزید ہمارس یوکرین کو ملنے والے ہیں اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکہ اس جنگ کو مزید لمبا کھینچنا چاہتا ہے کیونکہ ہتھیاروں کی فروخت ہی اصل میں اس کی کمائ کا ذریعہ ہے ۔

 

روس نے بھی ایک بے حد چونکانے والا فیصلہ کیا ہے اور وہ یہ کہ روس نے اس معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں دونوں ملک ایک دوسرے کے ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ کر سکتے تھے اب روس اور امریکہ کے ہتھیاروں کو لے کر کوئ جواب دہی طے نہیں ہو گی روس کتنے ایٹمی ہتھیار تیار کرے گا یا امریکہ اپنے پاس کتنا ایٹمی ذخیرہ رکھے گا  کوئ جواب دہ نہیں ہو گا  روس کے اس فیصلے نے پوری دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے میں ڈال دیا ہے ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+