یوکرین کریمیا کو دوبارہ حاصل کرنے کیلیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے

روس اور یوکرین دونوں ملکوں کی عداوت بہت پرانی ہے یہ جنگ تو ان قدیم رنجشوں کا ایک باب ہے روس اور یوکرین دونوں ملک ہی سوویت یونین میں شامل تھے 1957 میں سوویت یونین کے لیڈر نے کریمیا کا علاقہ یوکرین کو تحفے کے طور پر دے دیا تھا  1991 ء میں جب سوویت یونین ٹوٹی تو روس اور یوکرین بھی دو الگ الگ ملک بن گۓ لیکن کریمیا کو لے کر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے یہاں تک کہ 2014 ء میں روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا ۔

 

کریمیا کو لے کر روس اور یوکرین کے درمیان 2014 ء میں ہونے والی جنگ روس کیلیے بہت آسان تھی کیونکہ یوکرینی فوج نے بغیر لڑے کریمیا کو روسی فوج کے حوالے کر دیا تھا اور ایک رات میں ہی روسی فوج نے کریمیا پر مکمل قبضہ کر لیا تھا ۔

 

اب اسی کریمیا کو دوبارہ حاصل کرنے کیلیے یوکرین ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور یورپی ملکوں سے ہتھیاروں کی اپیل کر رہا ہے تاکہ کریمیا کو دوبارہ حاصل کر سکے ۔

 

یوکرین نے کریمیا پر قبضہ کرنے کیلیے پہلے جنگ کا اعلان کیا ہے اور اب یوکرینی فوج کا کریمیا پر حملہ سامنے آیا ہے جس میں یوکرینی فوج نے روسی فوج کے ہوائ اڈے کو تباہ کر دیا حالانکہ روس کے انتظامی صدر اور پیوٹن کے بہت قریبی دوست دیمیتری میدویدیف نے یوکرین سمیت نیٹو کو دھمکی دی تھی کہ اگر کریمیا پر حملہ ہوا یا کسی ملک نے کریمیا میں دخل اندازی کی تو انجام بہت برا ہو گا ۔

 

میدویدیف نے یوکرین کےکریمیا پر حملے کے اعلان کے بعد ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر کریمیا پر ایک بھی بم پھٹا اور یوکرین نے کریمیا پر حملے کا سوچا یا حملہ کیا تو روس ان تمام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے گا جو کریمیا حملے میں اہم کردار ادا کریں گے  ۔

 

لیکن ان تمام دھمکیوں کے باوجود یوکرین نے نہ صرف کریمیا پر حملہ کیا بلکہ روس کے ہوائ اڈے کو ہی اڑا دیا سوال یہ ہے کہ کریمیا روس اور یوکرین دونوں کیلیے کیوں اتنا اہم ہے کہ دونوں ملک اسے کھونا نہیں چاہتے ۔

 

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کریمیا کے ایک طرف ازوو سی ہے اور دوسری طرف بلیک سی اور اسی بلیک سی سے ہی روسی سمندری فوج یوکرین پر لگاتار حملے کر رہی ہے اور کریمیا پر روس کا قبضہ ہونے کی وجہ سے روس نے یوکرین کے سمندر تک پہنچنے کے تمام راستے بند کر دیے ہیں اسی لیے یوکرین کریمیا پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ روس  کی گھیرہ بندی کو توڑا جا سکے ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+