یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سعودی عرب کا کالا سونا کالا ہیرا بن کر چمکنے لگا

یوکرین میں جب سے جنگ شروع ہوئ ہے تو سعودی عرب کی کمائ کا کوئ اور ملک مقابلہ ہی نہیں کر سکتا اس کی وجہ سعودی عرب سے نکلنے والا کچا تیل ہے دنیا بھر میں کچے تیل کو کالا سونا مانا جاتا ہے اور یوکرین میں جنگ چھڑنے کے بعد تو یہ کالا سونا کالا ہیرا بن چکا ہے ۔

 

سعودی عرب دنیا بھر میں کچا تیل نکالنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور یوکرین جنگ کے بعد اور یورپی ملکوں اور کئ نیٹو ملکوں کی روس پر پابندیاں لگانے کے بعد تیل اور گیس کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھنے لگی ہیں کیونکہ کئ ملکوں نے روس سے تیل خریدنے پر پابندی لگا دی تھی اور کئ ملکوں کو روس نے تیل بیچنا ہی بند کر دیا تھا تیل کی بڑھتی ہوئ مانگ اور اس کی بڑھتی قیمتوں نے سعودی عرب کی معیشت کو پہیے نہیں بلکہ پر لگا دیے ہیں پچھلے تین مہینوں میں سعودی عرب کی جی ڈی پی ٪11.8 تک بڑھ چکی ہے ۔

 

لیکن اب پیوٹن نے ایران کے ساتھ مل کر روس پر لگائ گئ پابندیوں کو بے اثر بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلیے دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتہ ہو چکا ہے جس کا دونوں ملکوں کو برابر فائدہ ہو گا روس ایران کے ذریعے اپنا تیل اور گیس دوسرے ملکوں کو بھیجے گا اور اس کے بدلے روس ایران کے ایٹمی پاور پلانٹ میں ایران کی مدد بدستور جاری رکھے گا ۔

 

ایران میں ایٹمی پاور پلانٹ کی وجہ سے امریکہ اور ایران میں تناؤ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ امریکہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بناۓ لیکن روس ایٹمی ہتھیار بنانے میں ایران کے ساتھ کھڑا ہے ۔

 

روس اور ایران نے یہ سمجھوتہ اس وقت ہی کر لیا تھا جب یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار پیوٹن روس سے باہر نکلے تھے اور انھوں نے جولائ میں ایران کے شہر تہران کا دورہ کیا تھا پیوٹن کے دورے کے بعد روس کی سب سے بڑی توانائ کمپنی گزپروم کے ماہرین اور روس کی دوسری بڑی کمپنیوں کے ماہرین نے بھی ایران کا دورہ کیا تھا اور ایران کے کئ ماہرین نے بھی ماسکو کا دورہ کیا تھا ۔

 

اس باہمی گفت و شنید کے بعد دونوں ملکوں کے مابین یہ طے پایا تھا کہ ایران روس کے تیل کو پابندیوں کے باوجود دوسرے ملکوں تک پہنچاۓ گا اور اس کیلیے ایران بحیرہ کیپسین کی بندرگاہ کے ذریعے روس سے تیل منگواۓ گا اور پھر اس تیل کو اپنے ٹینکروں میں بھر کر دوسرے ملکوں تک پہنچاۓ گا کیونکہ ایران کے تیل بیچنے پر کوئ پابندی نہیں ۔

 

 

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+