یوکرین میں جس علاقے سے جنگ کا آغاز ہوا تھا اب وہی علاقہ جنگ کا آخری مورچہ بن چکا ہے

روس اور یوکرین کے درمیان اب جنگ آخری مراحل میں پہنچ چکی ہے اور کریمیا کا علاقہ جنگ کا آخری مورچہ بن چکا ہے یہ علاقہ بحیرہ اسود اور بحر اززوف کے درمیان واقع ہے جس پر روس کا موجودہ قبضہ ہے لیکن اب اسی علاقے کو لے کر دونوں ملکوں میں زبردست جنگ شروع ہو چکی ہے ۔

 

اب کریمیا کے علاقے میں روس اور یوکرین کی فوج آمنے سامنے آ چکی ہے دونوں فوجیں ایک دوسرے پر لگاتار حملے کر رہی ہیں  یوکرینی فوج امریکہ سے لیے گۓ ہتھیاروں سے کریمیا میں موجود روسی فوج کے ہوائ اڈوں کو نشانہ بنا رہی ہے کریمیا میں روسی فوج نے کئ فوجی ٹھکانے بنا رکھے ہیں ۔

 

روس یوکرین جنگ میں کریمیا اب اہم مورچہ بن چکا ہے جنگ کا آغاز بھی اسی علاقے سے ہوا تھا اور اختتام بھی یہیں ہو گا اسی لیے اب یوکرین کریمیا میں جنگ لڑنے کیلیے بار بار یورپی ملکوں سے ہتھیاروں کی مانگ کر رہا ہے تاکہ یوکرینی فوج کی طاقت بڑھ سکے اور وہ روسی فوج کا مقابلہ کر سکے ۔

 

یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر کریمیا دونوں ملکوں کیلیے اتنا اہم کیوں ہے ؟ کیوں روس  کریمیا کو کسی قیمت پر بھی یوکرین کے حوالے نہیں کرنا چاہتا اور یوکرین کیوں بار بار کریمیا پر ہی حملے کر رہا ہے ؟ 

 

ان سوالوں کا جواب اس علاقے کو لے کر روس اور یوکرین کی سالوں پرانی عداوت ہے روس اور یوکرین یہ دونوں ملک ہی سوویت یونین میں شامل تھے 1957 ء میں سوویت یونین کے سربراہ نے کریمیا کا علاقہ یوکرین کو تحفے کے طور پر دے دیا تھا اس طرح کریمیا یوکرین ریاست کا حصہ بن گیا 1991 ء میں سوویت یونین جب ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئ تو کریمیا یوکرین میں ہی شامل ہو گیا ۔

 

روس کریمیا پر اپنا حق جتاتا تھا اس لیے اس نے 2014 ء میں کریمیا پر قبضہ کر لیا اور روسی فوج نے کریمیا میں اپنا قلعہ مضبوط کرنے کیلیے کئ فوجی اڈے بنا رکھے ہیں اور روسی فوج کا ایک بہت بڑا ہوائ اڈہ ساقی اسی شہر میں ہے جس پر یوکرینی فوج نے چند روز قبل میزائلوں سے حملہ کیا اور اسے کافی نقصان پہنچایا ۔

 

یوکرین اپنے کھوۓ ہوۓ علاقے کو پھر سے حاصل کرنے کی چاہت میں  ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اسی لیے یورپ  سے ہتھیاروں کی اپیل کر رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہتھیاروں کے بھاری ذخیرے کے بغیر روسی فوج پر حملہ نہیں کیا جا سکتا ایک نا کام تجربہ وہ حال ہی میں کر چکا ہے جب اس نے خیر سون کا علاقہ روس سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن تمام ہمت اور طاقت جھونکنے کے باوجود نا کام ہی رہا ۔

 

 

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+