ولادیمیر پیوٹن کا یہ انداز ہے کہ "ہم وہ رستہ چھوڑ دیتے ہیں جو رستہ عام ہو جاۓ"

انڈونیشیا کے شہر بالی میں جی 20 کی سترھویں کانفرنس پندرہ اور سولہ نومبر کو ہو رہی ہے جس میں دنیا بھر کے بیس طاقتور ملکوں کے رہنما شرکت کر رہے ہیں اسی لیے اس گروپ کی مشترکہ کانفرنس کو جی 20 کہا جاتا ہے ۔

 

اس گروپ کی تشکیل کا فیصلہ 25 ستمبر 1999ء کو جی 7 کی کانفرنس کے دوران کیا گیا اس گروپ میں معاشی لحاظ سے دنیا بھر کے بیس مستحکم ملکوں کو شامل کیا گیا تھا اس گروپ کی تشکیل کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کی معیشت ، تجارت ، ادائیگی ٹیکس اور مستقبل میں بناۓ جانے والے منصوبے زیرِ بحث لانا تھا ۔

 

جی 20 ایسی کوئ تنظیم یا ادارہ نہیں ہے اس لیے اس کا کوئ ہیڈ کوارٹر نہیں ہے بلکہ کسی بھی ملک میں ہر سال تمام ملکوں کے صدر یا وزیراعلٰی کو بلا کر ایک میٹنگ منعقد کی جاتی ہے اور بین الاقوامی مسائل پر بات کی جاتی ہے ۔

 

جی 20  کی یہ سالانہ کانفرنس اس سال اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں روس ، امریکہ ، چین اور جرمنی جیسے ملکوں کے وزراء ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ کر بین الاقوامی مسائل پر بات چیت کریں گے جس میں روس ، یوکرین جنگ کے مسئلے کو بھی زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے ۔

 

اس کانفرنس میں جب بیس ممالک کے رہنما شرکت کیلیے پہنچے تو سب کی نظریں امریکہ اور چین کے رہنماؤں پر ٹکی ہوئ تھیں کیونکہ چین ، تائوان تناؤ کی وجہ سے پوری دنیا جو بائیڈن اور شی جنپنگ کے آمنے سامنے  آنے کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تلخ بیان بازی اور سرد جنگ کا ماحول بن چکا ہے ۔

 

اس کانفرنس میں دونوں ملکوں کے مابین تقریباً تین گھنٹے تک مختلف امور پر بات چیت ہوئ بائیڈن نے کہا کہ چین نے جنگی ماحول کو ہوا دی ہے اور دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالا ہے اور شی جنپنگ نے بھی کہا کہ امریکہ اس کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے دونوں کے ایک دوسرے کے مخالف بیانوں کے باوجود دونوں رہنما اس بات پر متفق دکھائ دیے کہ کچھ بھی ہو جاۓ  ایٹمی جنگ نہیں ہونی چاہیے ۔

 

دونوں ملکوں کے درمیان جب چین ، تائوان کے مسئلے کو زیرِ بحث لایا گیا تو دونوں رہنماؤں کے درمیان خوب تلخ کلامی ہوئ اور دنیا کے سامنے مسکرا کر ہاتھ ملانے والے دونوں ملک کسی مسئلے پر متفق ہوتے دکھائ نہیں دیے ۔

 

یوں تو دنیا بے صبری سے  اس کانفرنس کا انتظار اس لیے بھی کر رہی تھی کیونکہ اس میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی شرکت اور روس ، یوکرین جنگ کے حوالے سے ان کے اظہارِ خیالات بہت اہم تھے لیکن انھوں نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی بلکہ روس کے امورخارجہ کے وزیر سرگئ لاوروف نے شرکت کی ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+