افغانستان میں طالبان نے شرعی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں
- 15, نومبر , 2022
ایک ایسا ملک جہاں عورتوں کیلیے مردوں سے برابری بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے اور جہاں خواتین کھل کر نہ تو اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے مسائل بیان کر سکتی ہیں یہ ملک افغانستان ہے جہاں سے آج ایک نئ خبر یہ سامنے آئ ہے کہ طالبان نے ججوں کو سختی سے شرعی قوانین نافذ کرنے کا فرمان جاری کر دیا ہے ۔
طالبان نے افغانستان کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد افغان قوانین میں اپنی مرضی سے ردوبدل کیا ہے انھوں نے ججوں کی ایک میٹنگ بلوائ ہے جس میں انھیں سختی سے تاکید کی گئ ہے کہ کوڑے مارنے ، پھانسی دینے ، سنگسار کرنے اور چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے جیسی سزاؤں پر سختی سے عمل درآمد کروایا جاۓ ۔
افغان طالبان نے عورتوں کے حوالے سے کئ قوانین کا سختی سے نفاذ کرنے کا حکم بھی دیا ہے جن میں سرکاری اور نجی اداروں میں اور دفاتر میں عورتوں کے کام کرنے پر پابندی لگا دی گئ اور چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئ ۔
طالبان کے 2001 کے دورِ حکومت کی طرح اب بھی خواتین پر تشدد اور سختی جیسے قدغن اور پابندیاں نافذ کی جا رہی ہیں عورتوں کے تفریحی مقامات اور پارکوں میں جانے پر بھی پابندی لگا دی گئ ہے اور کسی محرم کے بغیر کسی عورت کو اجازت نہیں کہ وہ ملک کے اندر بھی کوئ طویل سفر کرے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی عورتوں کو مار پیٹ جیسی سزائیں بھی ملیں گی ۔
حالانکہ افغان طالبان نے اس مرتبہ 2001 کی نسبت قوانین میں نرمی برتنے کا وعدہ کیا تھا لیکن گزشتہ سال کے اگست سے ہی طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی افغان لوگوں کی آزادی اور حقوق کودبایا جا رہا ہے ۔
تبصرے