غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے ایسے ملکوں کے رہنماؤں کے دل بھی پگھلا دیے جو جنگ کے شروع میں غزہ پر حملوں کے حق میں تھے

اسرائیلی فوج کی جارحیت

نیوزٹوڈے : غزہ کے مسلمانوں اورفلسطین کے کئی دوسرے علاقوں کے بے گناہ لوگوں پر اسرائیلی جارحیت اور اسرائیلی فوج کے تشدد پر کئی ایسے ملکوں کے رہنماؤں کے دل بھی پگھلنے لگے ہیں جو جنگ کے شروع میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کو جائز قرار دے رہے تھے ان میں سے کئی ملکوں نے اسرائیلی جارحیت اور ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف بیان دینے شروع کر دیے ہیں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے اسرائیل اور حماس کی جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوۓ کہا ہے کہ دنیا نے فلسطین معاملے کو ایسے بھلا دیا ہے جیسے کوئی فلسطین کو جانتا ہی نہ ہو اس جنگ کا واحد حل دو ریاستوں کا قیام ہے غزہ کے حالات اس وقت جیسے ہو رہے ہیں یہ معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے یہ معاملہ جنگ کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا ۔

اس کیلیے بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے کوئی فیصلہ لینا ضروری ہے یورپی پارلیمینٹ کی رکن ایئون انسر نے بھی غزہ کو دی جانے والی امداد کی مخالفت کرنے والے ملکوں کو جواب دیا ہے کہ حماس حملوں کا ذمہ دار پورے فلسطین کو ٹھہرانا جلتی پر تیل کا کام کرنے کے برابر ہے یورپی یونین کے کمشنر اولیرو اہیلی نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ فلسطین کو ملنے والی امداد بند نہیں کی جاۓ گی البتہ اس کا جائزہ لیا جاے گا کہ کہیں اس امداد کا استعمال جنگ کو بھڑکانے کیلیے تو نہیں ہو رہا برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے بھی اسرائیل اور حماس کی جنگ روکنے کا حل دو ریاستوں کا قیام ہی بتایا ہے کہ اس وقت تک جنگ نہیں رک سکتی جب تک اسرائیل اور فلسطین کی الگ الگ حیثیت کو تسلیم نہ کیا جاۓ ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+