حکمرانی کی خواہش کن تاریخی شخصیات کی بربادی کا سبب بنی؟ تجزیہ
- 02, جنوری , 2024
نیوز ٹوڈے: یہ بات تو ثابت ہے کہ روزِجزا حکمرانوں کا حساب عام آدمی کے نسبت کئی گناہ زیادہ سخت ہو گا جو اس فانی دنیا میں کسی نہ کسی اقتدار میں فائز ہیں۔ اس لیے عظیم پشتو شاعر غنی خان اور عبدالوالی خان فرماتے ہیں کہ
"بادشاہی دجہان سہ کڑے ، زان ولے زیاتے غم
د انصاف تلل مشکل دی، سہ بہ زیات کڑے سہ بہ کم"
ترجمہ: دنیا کی بادشاہی کے پیچھے دوڑ کر اپنے لیے غم کیو بڑھاتے ہوں، اس میں تمہارا بچنا مشکل ہے، کیونکہ انصاف کے مطابق تولنا مشکل کام ہے،اور تم سے اس میں ضرور کوئی نہ کوئی غلطی ہو جائے گی۔
لیکن اسی اقتدار کے پیچھے صرف ہمارے سیاستدان نہیں بلکہ غیر ملکی سیاستدان بھی بھاگ رہے ہیں۔ ان دنوں الیکشن کا موسم گرم ہے ، جہاں بڑے لیڈر وزیر اعظم اور وزیر اعلی بننے کے لیے دل برداشتہ ہے ،وہی نچلی سطح کے لیڈر بھی ایم این اے اور ایم پی اے بھی بننے کے لیے ہر حد پار کر رہے ہیں۔ حالانکہ تاریخ ہمیشہ یہی سبق دیتی ہے کہ اس تالاب سے بہت کم لوگ عریاں ہوئے بغیر نکلتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں آپ کو تاریخ میں ملے گی، جن سے سبق لینا بہت ضروری ہیں۔
-
صدام حسین
عراقی لیڈر صدام حسین ، جو تنہا عراق کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ان سے کوئی بھی اختلاف کرنے والا زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ اس اقتدار کی طوالت کے خاطر کئی عرصہ امریکیوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا لیکن آخر میں کیا ہوا؟ انہی امریکیوں کے ہاتھوں بے سروسامانی پھانسی کے ہتھے چڑھنا پڑا۔
-
کرنل قذافی
یہ ایک اور بڑی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کرنل قذافی لیبیا کے مطلق العنان حکمران تھے اور ہمارے بھی بڑے لیڈرز انکے خزانےسے استفادہ ہونے کے لیے وقتاً فوقتاً حاضری لگاتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے کئی مرد اور عورتیں مامور کر رکھیں تھیں۔ اپنے ملک کے اندر کوئی بھی اختلافی آواز نہ چھوڑی لیکن بالاآخر وہ بھی امریکیوں کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئے اور انہی کے ہاتھوں مارے گئے۔
-
ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف
اگر ہم پاکستان کی ہی مثال لے تو ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیا کے ہاتھوں پھانسی ہوئی۔ اور ان کی بیٹی بے نظیر کو بھی پنڈی میں دہشتگردوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نواز شریف کے اقتداری حالات کو دیکھا جائے تو یہ بھی ایک نہیں بلکہ دو بار فوج کے ہاتھوں اپنی بادشاہت سے محروم ہوئے ہیں۔ بھائی، بھتیجوں، بیٹی سمیت جلاوطنی، قیدوبند کی صعوبتیں کاٹی، لیکن پھر بھی سیاست سے باز نہ آئے۔
-
اندراگاندھی
بھارت کی ایک طاقتور وزیر اعظم اندرا گاندھی جنہیں ایک سکھ سیکیورٹی گارڈ نے موت کی نیند سلادیا۔ ان کے ہی بیٹے راجیو گاندھی کو ایک تامل نے قتل کر دیا اور انکے ایک اور بیٹے جو طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔
-
سکندراعظم
سکندر اعظم کی ہی مثال لے لیں ،تو ہم میں سے بیشتر کو یہ معلوم ہو گا کہ انہوں نے دنیا کے بیشتر حصے فتح کیے تھے۔ مصر کا ایک شہر سکندریہ آج بھی ان کے نام سے منسوب ہے لیکن وہ بابل کی ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مر گیا۔ اس کے اکلوتے بیٹے کو اس کی زندگی میں ہی قتل کر دیا گیا تھا اور سکندر کی موت کے بعد اس کی حکومت تین جرنیلوں کو سونپ دی گئی تھی۔ زندگی کے آخری وقت میں سکندر آعظم نے کہا کہ : افسوس میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا لیکن موت نے مجھے فتح کر لیا اورمجھے عام آدمی جیسا سکون اس زندگی میں نہ مل سکا۔
-
نپولین
نپولین بونابارٹ جو ایک فوجی تھا اور اس نے پہلے فرانس کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آہستہ آہستہ پورے یورپ پر قابض ہو گیا۔ پہلے فرانس کی ایک حسینہ سے شادی کی اور پھر اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر آسٹریا کے بادشاہ کی بیٹی کو بیوی بنا لیا لیکن ان سب کے باوجود نپولین نے اپنے آخری ایام میں کہا کہ : مایوسی میرے نذدیک جرم تھی، لیکن آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان اس دنیا میں نہیں ہو گا، میں محبت اور اقتدار کا بھوکا تھا، حکومت مجھے ملی لیکن ساتھ نہیں نبھایا اور محبت مجھے کبھی مل ہی نہ سکی۔
-
عمران خان
اگر عمران خان صرف سوشل ورکر رہتے اور شوکت خانم جیسے اسپتال یا نیورسٹیاں بنواتے اور ورلڈکپ جیتانے والا سابق کپتان کے طور پر رہتے تو ملک بھر کے لوگ ان سے محبت کرتے۔ کوئی بھی شخص ان سے اختلاف نہ کرتا، لیکن انہیں بھی سیاست کی کشش اپنی طرف کھینچ لائی چنانچہ یہ بھی وزیر اعظم ہاوٌس سے ہوتے ہوئے جیل میں آبیٹھے۔
ان دنوں الیکشن کا ماحول گرم ہے ، اور ہر کوئی نہ تو وزیر اعظم بن سکتا ہے اور نہ ہی وزیر اعلی۔ صرف ایک ہی وزیر اعظم ہو گا اور چار وزیر اعلی بنیں گے۔ لیکن ہر سیاستدان اپنی دوڑ میں ہے ، پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں، خونی رشتے تک قربان کر رہے ہیں ، خوشامد اور چاپلوسی کر رہے ہیں، حالانکہ خوشی اور سکون اقتدارمیں نہیں ہے۔
تبصرے