عمران خان اور اسرائیلی اخبار کا مضمون

عمران خان اور اسرائیلی اخبار

اسرائیل کا مشہور اخبار "ٹائمز آف اسرائیل" اسرائیل کے معروف اخبارات میں سے ایک ہے۔ یہ اخبار اسرائیل اور مغربی ممالک میں رہنے والی یہودی برادری میں بہت مقبول ہے اور اخبار میں شائع ہونے والے مضامین بہت اہم ہیں اور انہیں اسرائیلی حکومت کی آشیرباد حاصل ہے۔

ایک غیر متوقع اتحادی: " اسرائیل پاکستان تعلقات کو عمران خان کیسے تشکیل دے سکتے ہیں" حال ہی میں "ٹائمز آف اسرائیل" میں شائع ہوا۔ اس مضمون نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ مضمون ایک خاتون یہودی صحافی انور بشیروفا نے لکھا ہے جس میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو پاکستان اسرائیل تعلقات استوار کرنے کے لیے موزوں ترین شخص قرار دیا گیا ہے۔

آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اپنی سابقہ ​​اہلیہ جمائما کے گولڈ سمتھ فیملی کے ذریعے اسرائیل سے رابطے قائم کیے اور اسرائیلی حکومت کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ . مضمون میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان ایک عرصے سے فلسطین کی تحریک آزادی کا سب سے مضبوط حامی رہا ہے جس کی جڑیں پاکستانی معاشرے اور آئین میں پیوست ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر فلسطینیوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کی ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے تشخص سے متصادم ہے۔

عمران خان نے وہی اسرائیل مخالف بیانیہ کھلے عام عوام میں دہرایا لیکن پس پردہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ عمران خان میں مغرب اور عالم اسلام کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے اس لیے اسرائیل اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو سیاست اور حکومت میں واپس لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

غور طلب ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں ایسی خبریں منظر عام پر آتی رہیں کہ ’عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما پاک اسرائیل تعلقات کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں‘۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے۔ جمائما کا گولڈ سمتھ خاندان برطانوی اشرافیہ کا حصہ ہے اور اس خاندان کے اسرائیل نواز لابی سے قریبی تعلقات ہیں۔

عمران خان نے اپنی سابقہ ​​اہلیہ کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ کو برطانوی سیاست میں لانے اور انہیں لندن کا میئر بنانے کی مہم کی بھی قیادت کی۔ 2016 میں، انہوں نے لندن کے میئر کے انتخاب میں پاکستانی نژاد مسلمان صادق خان کے خلاف یہودی نژاد زیک گولڈ اسمتھ کی حمایت کا اعلان کیا، جس پر پاکستان اور برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کی جانب سے عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان کے یہودی خاندان سے قریبی تعلقات کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان، حکیم محمد سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی شخصیات بھی عمران خان کو ’’یہودی ایجنٹ‘‘ قرار دیتی رہی ہیں۔

ایک اسرائیلی اخبار میں حالیہ مضمون کی اشاعت اور عمران خان کی گولڈ سمتھ فیملی سے وفاداری پی ٹی آئی کے بانی پی ٹی آئی کو اپنی ساکھ کھونے اور آنے والے دنوں میں مزید مشکلات کا سامنا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگرچہ عمران خان اپنے دور حکومت میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے رہے جو کہ لب کشائی سے زیادہ نہیں تھی، لیکن انہوں نے عوامی بیانات اور اسرائیل کے ساتھ پس پردہ تعلقات میں توازن برقرار رکھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان، اس پر نظر ثانی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا روایتی موقف اور مشرق وسطیٰ کی تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان نہیں تھا کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں پیش رفت کر سکتے۔ 

پاکستان میں فلسطینی عوام سے محبت کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانیوں کی رگ و پے میں ہے جس کی عکاسی پاکستان کی سرکاری پالیسی سے بھی ہوتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب غزہ میں قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں خواتین اور بچوں سمیت 40 ہزار سے زائد فلسطینی بے نقاب ہوچکے ہیں اور اسرائیل کے خلاف پاکستانیوں کے جذبات انتہا پر ہیں، پی ٹی آئی کے بانی کی مشکلات میں عمران خان کی حمایت میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ ایک اسرائیلی اخبار۔ جس سے نہ صرف سیاسی مخالفین کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عمران خان کی مقبولیت میں بھی کمی آئے گی۔

 عمران خان کو سیاست اور حکومت میں واپس لانے کے لیے اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادی پہلے ہی سرگرم ہیں اور عمران خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بنانے کی مغربی کوشش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ انہیں آکسفورڈ کا چانسلر بنا کر ان کی اہمیت میں اضافہ کریں اور انہیں عالمی رہنما کے طور پر پیش کریں جس نے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے نفاذ کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ بعد میں ملالہ یوسفزئی کی طرح عمران خان کو بھی نوبل انعام کے لیے نامزد کیا جائے اور انہیں اقتدار میں لا کر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔

user

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+