جو بائڈن 80 سالہ پرانے رشتوں کو مضبوط کرنے کیلیے سعودی عرب پہنچے
- 16, جولائی , 2022
مشرق وسطی میں اسرائیل دورے کے بعد رشتوں میں آئ کھٹاس کو مٹانے کیلیے جو بائڈن آج سعودی عرب کے شہر ریاض پہنچ گۓ ریاض میں بائڈن شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے ایسے میں پوری دنیا کی نظر اس بات پر ہے کہ جب دونوں ملک ایک دوسرے کو پسند ہی نہیں کرتے تو کیا ان کی یہ ملاقات ان کے ملکوں اور لوگوں کے رشتوں میں پڑی کشیدگیوں اور نفرتوں کو مٹا پاۓ گی ۔
بائڈن اور شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات دونوں ملکوں کی مجبوری ہے 80 سال پہلے جب دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا تو اس وقت سے لے کر اب تک وقت ، حالات اور دنیا سب کچھ بدل چکا ہے اور دونوں ملک کبھی دوستی جیسے مضبوط رشتے میں نہیں بندھ سکے ۔
دونوں ملکوں کے رشتوں میں تناؤ کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی ضرورتیں الگ الگ ہیں اور دنیا کے بارے میں دونوں ملک الگ الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں اس لیے ایسے بے میل رشتے میں جان نہیں پھونکی جا سکتی ۔
سعودی عرب سے رشتے سدھارنا امریکہ کی کوئ خواہش نہیں بلکہ مجبوری ہے کیونکہ ان دونوں ملکوں کے تناؤ سے چین کو خوب فائدہ پہنچ رہا ہے اور چین اور سعودی عرب ایک دوسرے کے اتنے قریب آ چکے ہیں کہ اگر امریکہ اب بھی نہ سنبھلا تو بہت جلد سعودی عرب اور چین ایک ہو جائیں گے ۔
اسی خوف کے پیش نظر بائڈن سعودی عرب جا پہنچے کیونکہ چین نے امریکہ کی جگہ لینے کیلیے سعودی عرب میں اپنی جڑیں کافی مضبوط کر لی ہیں چین نے پچھلے کچھ عرصے میں نہ صرف سعودی عرب سے اپنی خرید کو بڑھایا ہے بلکہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی سپلائ بھی بڑھا دی ہے ۔
سعودی عرب چین سے ڈرون خرید رہا ہے اور اس کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی ہے کیونکہ امریکہ نے سعودی عرب کو ڈرون بیچنے سے انکار کیا تھا تو سعودی عرب نے چین سے سمجھوتہ کر لیا تھا سعودی عرب کی اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہتھیار ہی ہیں کیونکہ اس کے پڑوس میں اس کا دشمن ایران دھڑلے سے ہتھیار بنانے میں جتا ہے ۔
ان حالات میں جو بھی ملک سعودی عرب کی ہتھیاروں کی ضرورت پوری کر دے گا وہ اس کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہو جاۓ گا اور اس وقت چین سعودی عرب کا سب سے بڑا مدد گار ہے چین اور سعودی عرب کے یہ تعلقات امریکہ کیلیے خطرے کی گھنٹی ہیں اس لیے امریکہ کا ماتھا ٹھنکا ہے ۔
امریکہ کے سعودی عرب دورے کا دوسرا مقصد تیل کا کھیل ہے جو کہ سعودی عرب میں بہت اہم ہے سعودی عرب تیل سپلائ کرنے والا دنیا کا سب سے اہم ملک ہے اور چین اس کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اکیلا چین سعودی عرب کے کچے تیل کا ایک چوتھائ خریدتا ہے ایسے میں اگر چین سعودی عرب کا ہتھیاروں کا سب سے بڑا سپلائر بن گیا اور چین اور امریکہ میں تائوان مسئلے پر جنگ چھڑ گئ تو چین سعودی عرب پر دباؤ ڈال کر امریکہ اور یورپ کو تیل کی سپلائ بھی رکوا سکتا ہے ۔
امریکہ پہلے ہی یوکرین میں جنگ کی وجہ سے روس پر پابندیاں لگا کر اور روسی کمپنیوں سے قطع تعلق ہو کر روس کے تیل سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اس لیے اب وہ سعودی عرب کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ۔
مزید پڑھیں: روس نے ہائپرسونک میزائل بنا کر سمندر کی بادشاہت حاصل کر لی
تبصرے