جو بائڈن 80 سالہ پرانے رشتوں کو مضبوط کرنے کیلیے سعودی عرب پہنچے

مشرق وسطی میں اسرائیل دورے کے بعد رشتوں میں آئ کھٹاس کو مٹانے کیلیے جو بائڈن آج سعودی عرب کے شہر ریاض پہنچ گۓ ریاض میں بائڈن شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے ایسے میں پوری دنیا کی نظر اس بات پر ہے کہ جب دونوں ملک ایک دوسرے کو پسند ہی نہیں کرتے تو کیا ان کی یہ ملاقات ان کے ملکوں اور لوگوں کے رشتوں میں پڑی کشیدگیوں اور نفرتوں کو مٹا پاۓ گی ۔

 

بائڈن اور شہزادہ محمد بن سلمان کی ملاقات دونوں ملکوں کی مجبوری ہے 80 سال پہلے جب دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا تو اس وقت سے لے کر اب تک وقت ، حالات اور دنیا سب کچھ بدل چکا ہے اور دونوں ملک کبھی دوستی جیسے مضبوط رشتے میں نہیں بندھ سکے ۔

 

دونوں ملکوں کے رشتوں میں تناؤ کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی ضرورتیں الگ الگ ہیں اور دنیا کے بارے میں دونوں ملک الگ الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں اس لیے ایسے بے میل رشتے میں جان نہیں پھونکی جا سکتی ۔

 

سعودی عرب سے رشتے سدھارنا امریکہ کی کوئ خواہش نہیں بلکہ مجبوری ہے کیونکہ ان دونوں ملکوں کے تناؤ سے چین کو خوب فائدہ پہنچ رہا ہے اور چین اور سعودی عرب ایک دوسرے کے اتنے قریب آ چکے ہیں کہ اگر امریکہ اب بھی نہ سنبھلا تو بہت جلد سعودی عرب اور چین ایک ہو جائیں گے ۔

 

اسی خوف کے پیش نظر بائڈن سعودی عرب جا پہنچے کیونکہ چین نے امریکہ کی جگہ لینے کیلیے سعودی عرب میں اپنی جڑیں کافی مضبوط کر لی ہیں چین نے پچھلے کچھ عرصے میں نہ صرف سعودی عرب سے اپنی خرید کو بڑھایا ہے بلکہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی سپلائ بھی بڑھا دی ہے ۔

 

سعودی عرب چین سے ڈرون خرید رہا ہے اور اس کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی ہے کیونکہ امریکہ نے سعودی عرب کو ڈرون بیچنے سے انکار کیا تھا تو سعودی عرب نے چین سے سمجھوتہ کر لیا تھا  سعودی عرب کی اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہتھیار ہی ہیں کیونکہ اس کے پڑوس میں اس کا دشمن ایران دھڑلے سے ہتھیار بنانے میں جتا ہے ۔

 

ان حالات میں جو بھی ملک سعودی عرب کی ہتھیاروں کی ضرورت پوری کر دے گا وہ اس کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہو جاۓ گا اور اس وقت چین سعودی عرب کا سب سے بڑا مدد گار ہے چین اور سعودی عرب کے یہ تعلقات امریکہ کیلیے خطرے کی گھنٹی ہیں اس لیے امریکہ کا ماتھا ٹھنکا ہے ۔

 

امریکہ کے سعودی عرب دورے کا دوسرا مقصد تیل کا کھیل ہے جو کہ سعودی عرب میں بہت اہم ہے سعودی عرب تیل سپلائ کرنے والا دنیا کا سب سے اہم ملک ہے اور چین اس کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اکیلا چین سعودی عرب کے کچے تیل کا ایک چوتھائ خریدتا ہے ایسے میں اگر چین سعودی عرب کا ہتھیاروں کا سب سے بڑا سپلائر بن گیا اور چین اور امریکہ میں تائوان مسئلے پر جنگ چھڑ گئ تو چین سعودی عرب پر دباؤ ڈال کر امریکہ اور یورپ کو تیل کی سپلائ بھی رکوا سکتا ہے ۔

 

امریکہ پہلے ہی یوکرین میں جنگ کی وجہ سے روس پر پابندیاں لگا کر اور روسی کمپنیوں سے قطع تعلق ہو کر روس کے تیل سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اس لیے اب وہ سعودی عرب کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ۔

 

مزید پڑھیں: روس نے ہائپرسونک میزائل بنا کر سمندر کی بادشاہت حاصل کر لی
 

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+