یورپی ملکوں کے کیے کا انجام اکیلا جرمنی بھگت رہا ہے

بلا شبہ جنگ ایک ایسا وائرس ہے جو چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں نمودار ہوا ہو اس کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے اور جنگ چاہے دو ملکوں کے درمیان ہی کیوں نہ لڑی جا رہی ہو اس کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں دنیا کے کئ ملکوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔

 

اس وقت یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے کئ ملک خصوصاً یورپ کو کئ مسائل درپیش ہیں کیونکہ جنگ کے آغاز میں ہی ان یورپی ملکوں نے امریکہ کا ساتھ دیتے ہوۓ روسی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دیں اور تمام معاشی معاہدے توڑ دیے کیونکہ امریکہ اور یورپی ممالک کا خیال تھا کہ اس طرح روس کی کمر ٹوٹ جاۓ گی جب وہ اکیلا رہ جاۓ گا تو بہت جلد یوکرین سے اپنی فوج واپس بلا لے گا ۔

 

لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور پیوٹن نے جو داؤ چلا اس سے یورپی ملکوں اور امریکہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیونکہ امریکہ نے ان تیس ملکوں کی فہرست مارچ میں ہی تیار کر لی تھی جنھوں نے اس جنگ میں یوکرین کی مدد کی تو روس نے ان ملکوں کو تیل اور گیس کی سپلائ روکنے کا فیصلہ کر لیا ۔

 

روس کی اس فہرست میں جرمنی کا نام بھی شامل ہے جرمنی نے روس سے قطع تعلق کرتے ہوۓ یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ دسمبر 2022ء تک روس سے گیس خریدنا بند کر دے گا لیکن اس سے پہلے ہی روس نے جرمنی کو بھیجی جانے والی گیس میں ٪60 کٹوتی شروع کر دی۔

 

روس کے اس فیصلے کے بعد جرمنی کے لوگوں کو قدرتی گیس خریدنے کیلیے تین گنا قیمت ادا کرنا پڑے گی مہنگائ کی مار جھیل رہے جرمنی کے لوگوں کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے جرمنی کے لوگوں کا بجٹ بگڑنا طے ہے پہلے ہی وہاں گیس کی قیمتیں بڑھنے سے باقی چیزوں کے دام بھی بڑھ چکے ہیں ۔

 

چند مہینوں میں جب گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاۓ گا اس وقت گیس کی ضرورت بھی بڑھ جاۓ گی کیونکہ سردی شدید ہو گی اور اگر قیمتیں تین گنا تک بڑھا دی گئیں تو جرمنی کے لوگوں کیلیے اس بوجھ کو سنبھالنا مشکل ہو جاۓ گا کیونکہ جتنا پیسہ پورے سال میں گیس پر خرچ ہوتا تھا اب اس سے بھی کچھ زیادہ پیسہ صرف ٹھنڈ کے چار پانچ مہینوں میں خرچ کرنا پڑے گا ۔

 

 جرمنی کی گیس کمپنی کیلیے ابھی سے قدرتی گیس کی خرید سات گنا مہنگی ہو چکی ہے اسی لیے گیس کمپنیاں جرمنی حکومت سے اس بات کی اپیل کر رہی ہیں کہ  گاہکوں سے وہ ایک پرانے سمجھوتے کی وجہ سے پورا بوجھ گاہکوں پر نہیں ڈال سکتے ۔

 

دوسری طرف جرمنی کی گیس کمپنیوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ یہ بوجھ لمبے عرصے تک اٹھا پائیں اس لیے جرمنی حکومت کی پہلی کوشش وہاں کے لوگوں کو مطمئن کرنا ہے اور اس نۓ گھمبیر مسئلے کا ذمہ دار پیوٹن کو ٹھہرایا جا رہا ہے ۔

 

اس کا مطلب ہے کہ روس کیلیے لگائ گئ آگ میں یورپ کے ملک خود ہی جھلس رہے ہیں جرمنی کا شمار یورپ کے سب سے طاقتور ملکوں میں ہوتا ہے لیکن پچھلے تین مہینوں میں جرمنی کی معیشت بری طرح متاثر ہوئ ہے ۔

 

مزید پڑھیں: روس کے ٹرانسپورٹ ہوائ قافلے نے یوکرین میں داخل ہو کر زیلینسکی کی نیندیں اڑا دیں
 

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+