پیوٹن نے ماسکو میں بیٹھ کر ایک اشارہ کیا اور ماریو دراغی کو استعفٰی دینا پڑا

یوکرین میں جنگ چھیڑ کر یورپی ملکوں کی ناک میں دم کیے بیٹھے پیوٹن نے ایک بار پھر یورپ میں ہلچل مچا دی ہے اس بار یورپی میڈیا کا کہنا ہے کہ روس کے خلاف کھڑے اٹلی سے بدلہ لینے کیلیے پیوٹن نے اٹلی کی حکومت ہی گروا دی ہے ۔

 

اصل میں اٹلی میں پچھلے ہفتے ماریو دراغی کی حکومت گر گئ ہے یہ خبر اتنی اہم نہیں ہے حکومتیں اور سرکار تبدیل ہو تے رہتے ہیں اصل سنسنی اس خبر سے پھیلی جب یہ حقیقت سامنے آئ کہ ماسکو میں بیٹھے پیوٹن کی پہنچ اتنی ہے کہ انھوں نے ایک اشارہ کیا اور ماتیو سلوینی اپنے ہی ملک کے ساتھ  غداری کرنے کو راضی ہو گۓ اور پیوٹن کے راستے کا کانٹا نکل گیا اور ماریو دراغی کو استعفیٰ دینا پڑا ماریو دراغی حکومت اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔

 

ماتیو سلوینی اٹلی کے  وزیر داخلہ اور اٹلی کی انتہائ دائیں بازو لیگا نارڈ پارٹی کے وفاقی  سیکرٹری ہیں اور یہ پیوٹن کے بہت بڑے پرستار ہیں اور پیوٹن سے ان کے قریبی تعلقات سے ہر کوئ واقف ہے اور سلوینی کئ بار ماسکو بھی جا چکے ہیں ۔

 

ماتیو سلوینی پیوٹن کو اس حد تک پسند کرتے ہیں کہ وہ کئ بار پیوٹن کے چہرے والی ٹی شرٹ پہنے نظر آ چکے ہیں اور وہ پیوٹن سے مل بھی چکے ہیں چند روز قبل سلوینی نے ماسکو جانے کا فیصلہ کیا تو ان کی ٹکٹ روسی ہوائ کمپنی کی طرف سے کروائ گئ پھر سلوینی کسی  وجہ سے روس نہ جا سکے لیکن سلوینی کے پیوٹن سے قریبی مراسم ہونے کی وجہ سے ماریو دراغی کی حکومت گرانے کا ذمہ دار ماتیو سلوینی کو ہی ٹھہرایا جا رہا ہے ۔

 

ماتیو سلوینی نے پیوٹن کے ساتھ ملی بھگت کی خبروں کو جھوٹ بتایا اور ان تمام خبروں کو جھٹلا دیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اٹلی میں 25 ستمبر کو نئ حکومت کا چناؤ ہے اور یہ غالب امکان ہے کہ سلوینی کی پارٹی جیت جاۓ گی اور سلوینی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

 

اگر ایسا ہو گیا تو پیوٹن کیلیے یہ سونے پر سہاگہ ہو گا کیونکہ ماریو دراغی کا اقتدار چھن جانے سے پیوٹن ایک میدان تو پہلے ہی جیت چکے ہیں اور پھر دوسرا پیوٹن کے اپنے ہی آدمی کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور آ جانا پیوٹن کیلیے بے حد فائدہ مند ثابت ہو گا ۔

 

کیونکہ ماتیو سلوینی یورپی یونین کے خلاف ہیں اور ماریو یورپی یونین کے حمایتی تھے اور جنگ کے آغاز سے ہی وہ یوکرین کے ساتھ تھے اور دراغی روس پر لگنے والی پابندیوں کے بھی حمایتی تھے لیکن یورپی میڈیا کا دعوٰی ہے کہ پیوٹن نے اپنے دشمن کو ہی ٹھکانے لگا دیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔

 

یورپی میڈیا کی خبروں میں کس حد تک سچائ ہے یہ حقیقت تو جانچ پڑتال کے بعد ہی سامنے آۓ گی لیکن یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ یورپ کی ایک ٹانگ ضرور لڑ کھڑا گئ ہے اس مہینے کے شروع میں بارس جانسن نے برطانیہ کی حکومت کو چھوڑ دیا اور ایک ہفتہ پہلے ماریو دراغی نے اٹلی کی حکومت سے استعفٰی دے دیا ۔

 

اس سے ایک بات تو طے ہے کہ جس ملک نے بھی پیوٹن کے خلاف کچھ بولا اس کا پتا ہی صاف ہو گیا بارس جانسن اور ماریو دراغی دونوں ہی پیوٹن کے خلاف زہر اگل رہے تھے اور اٹلی میں اس وقت یہ بھونچال آنے کی وجہ یہ ہے کہ اٹلی نیٹو اور جی 7 میں شامل اور یورپی یونین کا تیسرا بڑا ملک ہے اس لیے یہ سوال کہ اٹلی کی کمان اب کس کے ہاتھ میں جاۓ گی صرف اٹلی کے عوام کیلیے ہی اہم نہیں بلکہ پورے یورپ ، امریکہ اور پیوٹن کیلیے بہت اہم ہے ۔

 

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+