پیوٹن کیلیے اردگان کی بڑھتی پسندیدگی سے یورپ اور امریکہ کی سانسیں اٹکنے لگی ہیں

روس اور ترکی کی بڑھتی نزدیکیوں نے یورپ اور امریکہ کی راتوں کی نیند اڑا رکھی ہے ویسے تو روس اور یوکرین جنگ میں ترکی کی دوہری پالیسی نے سب کو حیران کر رکھا ہے لیکن پچھلے ایک ماہ سے اردگان کو پیوٹن جس طرح پسند آنے لگے ہیں ان کی اس پسندیدگی سے نیٹو اور یورپی یونین کو بخار چڑھنے لگا ہے ۔

 

ترکی نے جنگ کے آغاز سے لے کر چار ماہ تک نہ تو روس پر کوئ پابندی لگائ اور نہ ہی روس سے گیس خریدنی بند کی اسی طرح ترکی نے یوکرین کو لڑنے کیلیے بہت خطرناک جنگی طیارے بھی دیے ہیں مطلب کہ روس یوکرین جنگ سے ساری دنیا پریشان اور بدحال ہے لیکن ترکی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا ۔

 

اب رجب طیب اردگان پیوٹن کے ساتھ دوستی کی مثال قائم کر کے امریکہ اور یورپ کو مزید بھڑکا رہے ہیں کیونکہ اب تک روس اور ترکی کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے تھے بلکہ صدیوں سے دونوں ملک ایک دوسرے کے مخالف ہی رہے ہیں چاہے بات یوکرین لیبیا یا سیریا کی ہو یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے مخالف ہی رہے ہیں لیکن اب حالات ایسے بدل چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے رہنما  20 جولائ سے 5 اگست  کے درمیان دو بار ملاقات کر چکے ہیں ان کی یہی ملاقاتیں امریکہ اور یورپ کو پریشان کر رہی ہیں ۔

 

کیونکہ نیٹو اور یورپ روس کو شکست دینے کی کوشش میں ہیں لیکن نیٹو کے ہی ملک ترکی نے حال ہی میں روس سے کئ کاروباری اور تجارتی سمجھوتے کیے ہیں بے شک دونوں ملک سیریا میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں لیکن اب دونوں ملک خود ہی سیریا میں جنگ بندی کر کے سیریا کا حل تلاش کر رہے ہیں اور اس کوشش میں انھوں نے امریکہ کو شامل تک نہیں کیا ۔

 

اب امریکہ کو لگ رہا ہے کہ روس اور ترکی یوکرین کی جنگ میں بھی ایسا ہی کریں گے اور ترکی ایسی کوشش کر رہا ہے بلکہ ترکی  روس اور یوکرین کے درمیان اناج سمجھوتہ کروا بھی چکا ہے اسی لیے اب یورپ اور نیٹو کی سانسیں اٹکی ہوئ ہیں کہ روس اور ترکی سیریا کی طرح یوکرین میں بھی اپنے حساب سے ہی جنگ کا نتیجہ طے نہ کر دیں ۔

 

یورپ پہلے ہی جنگ کی مار جھیل رہا ہے اور وہ اس لیے مجبور ہے کہ ترکی یورپی یونین کا ایک اہم ساتھی ہے اور نیٹو بھی ترکی کو آنکھ نہیں دکھا سکتا کیونکہ سویڈن اور فن لینڈ کیلیے نیٹو تک پہنچنے کیلیے مرکزی دروازہ ترکی ہی ہے ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+