ترکیہ کے صدر زیلینسکی کو کس بات پر راضی کرنے کیلیے یوکرین پہنچے ہیں ؟

روس اور یوکرین جنگ پچھلے چھ ماہ سے جاری ہے لیکن ابھی تک بے نتیجہ ہی ہے جولائ میں جب روس اور یوکرین کے وزراء نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان سے مل کر استنبول میں اناج سمجھوتے پر دستخط کیے اس مِرر دستاویز پر دستخط ہونے کے بعد روس نے یوکرین اناج کی سپلائ کیلیے بلیک سی کا راستہ کھول دیا تھا ۔

 

جنگ کی آگ میں جل رہے یوکرین اور غصے کی آگ میں جل رہے روس کو ایک سمجھوتے پر راضی کرنے کے بعد دنیا کو  ایک امید موہوم نظر آنے لگی تھی اسکے بعد ترکیہ کے صدر کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ یہ سمجھوتہ جنگ ختم کروانے کیلیے پہلا قدم مانا جاتا ہے اردگان کا کہنا ہے کہ وہ جنگ ختم ہونے تک چپ نہیں بیٹھیں گے ۔

 

اسی مقصد سے اب ترکیہ کے صدر یوکرین پہنچے ہیں کہ وہ زیلینسکی کو اس بات پر راضی کرنا چاہتے ہیں  کہ وہ بات چیت کے ذریعے کسی سمجھوتے پر جنگ بندی کی کوشش کرے کیونکہ زیلینسکی اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ وہ آخری دم تک روس سے جنگ لڑے گا اور اس کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا ۔

 

زیلینسکی کی اسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یوکرین پچھلے چھ ماہ سے جنگ کی آگ میں جل رہا ہے اس دوران نہ تو امریکی فوج یوکرین کی مدد کیلیے لڑنے آئ اور نہ ہی یورپ کے دوسرے ملکوں نے فوج بھیجی نتیجتاً روس کی طاقتور فوج سے یوکرین کی فوج اکیلے ہی جنگ لڑ رہی ہے اور اس جنگ کا کوئ سر پاؤں نظر ہی نہیں آ رہا ۔

 

کیونکہ کئ علاقوں میں روسی فوج کا قبضہ ہو چکا ہے اور روسی فوج وقت بے وقت یوکرین پر میزائلیں برسا رہی ہے ایسے سنگین حالات میں ترکیہ کے صدر نے یوکرینی فوج کو جنگ بندی کی امید دلائ ہے کیونکہ پہلے بھی ترکیہ کی کوشش سے ہی بلیک سی کے راستے اڑیسہ کے اناج کی سپلائ ممکن ہوئ ۔

 

یوکرین کے ساتھ ساتھ ترکیہ کے روس سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں نیٹو میں شامل ہونے کے باوجود ترکیہ نے روس سے نزدیکیاں بنائ ہوئیں ہیں اور چاہے سویڈن اور فن لینڈ کو نیٹو میں شامل کرنے کا معاملہ ہو یا ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کے سمجھوتے کا معاملہ ہو دونوں موقعوں پر ترکیہ نے امریکہ سے آنکھیں پھیر لیں اور روس کے ساتھ ہی کھڑا نظر آیا اور اب ترکیہ کے یہی دوٹوک فیصلے روس یوکرین جنگ کو کسی نتیجے تک پہنچانے میں اس کے کام آ رہے ہیں ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+