ترکیہ نے ایک ایسا منصوبہ بنایا ہے کہ وہ نیٹو ، یورپ یہاں تک کہ امریکہ کو بھی اپنے سامنے جھکا دے گا

کہا جاتا ہے کہ جنگ ایک ایسی مصیبت ہوتی ہے جس میں نقصان دونوں فریق ہی اٹھاتے ہیں کسی کو کم نقصان ہوتا ہے تو کسی کو زیادہ لیکن جنگ میں فائدہ نہیں ہوتا لیکن روس اور یوکرین کی جنگ نے یہ نظریہ ہی بدل دیا ہے اس جنگ میں ایک ملک ایسا بھی ہے جو براہِ راست جنگ میں شامل تو نہیں ہوا لیکن اس جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ اسی ملک کو ہو رہا ہے ۔

 

اس جنگ سے دوہرا فائدہ اٹھانے والا ملک ترکیہ ہے جو جنگ کے اول روز سے ہی فائدہ اٹھا رہا ہے جنگ کے شروع میں ہی ترکیہ نے یوکرین کو بارکتار ٹی بی 2 ڈرونز دے کر خوب نفع کمایا ہے اور خود کو ہتھیاروں کی دنیا کا بادشاہ بھی ثابت کر دیا ۔

 

پھر ترکیہ نے فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی بہت مخالفت کی جس سے وہ روس کا بھی منظورِ نظر بن گیا اور جولائ میں ترکیہ نے روس اور یوکرین کے درمیان جو یوکرین کے اناج سپلائ کو بحال کرنے کا سمجھوتہ کروایا یہ سمجھوتہ ترکیہ کا ایسا کارنامہ تھا جو کوئ اور ملک انجام نہیں دے سکتا تھا ۔

 

ترکیہ نے یوکرین کے کروڑوں ٹن پھنسے اناج کی سپلائ بحال کرائ یوکرین دنیا بھر میں اناج برآمد کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے اور دنیا کے بہت سے ملک یوکرین کے اناج پر انحصار کرتے ہیں لیکن روس نے جنگ کے شروع میں ہی یوکرین کے اناج سپلائ کے راستے بند کر دیے تھے جو ترکیہ نے کھلواۓ ۔

 

لیکن ترکیہ کی یہ منصوبہ بندی یہیں تک نہیں ہے بلکہ ترکیہ نے ایسا منصوبہ بنایا ہے کہ وہ نیٹو ، یورپ یہاں تک کہ امریکہ کو بھی اپنے سامنے جھکا سکتا ہے ترکیہ کے پاس سب سے بڑی طاقت دنیا کے نقشے پر ترکیہ کا وجود ہے ۔

 

ترکیہ دنیا کے نقشے پر ایسی جگہ واقع ہے جہاں ایشیا اور یورپ آپس میں ملتے ہیں یعنی ترکیہ کا ایک پاؤں ایشیا میں ہے تو دوسرا یورپ میں ہے اور اگر بحیرہ اسود میں پہنچنا ہو تتو اس دروازے کے تالے کی چابی بھی ترکیہ ہی ہے ۔

 

ترکیہ کے پاس ایسی دوا بھی ہے جو تیل اور گیس کے مرض میں تڑپتے یورپ کیلیے راحت کا سامان بن سکتی ہے یورپی ملک تیل اور گیس کیلیے روس پر انحصار کرتے ہیں لیکن روس نے جنگ کے بعد یورپی ملکوں کو گیس اور تیل کی سپلائ میں کمی کر دی ہے جس سے اتنی کم گیس سے آنے والی سردیاں یورپی ملکوں کیلیے گزارنا سخت مشکل ہے ۔

 

یورپی ملک گیس خریدنے کیلیے اب نۓ بازار ڈھونڈ رہے ہیں اور روس کے بعد کچھ ایشیائ ملک اس دولت سے مالا مال ہیں جن میں ترکمانستان ، ازبکستان اور قازکستان شامل ہیں قطر ، اسرائیل اور ایران جیسے ملکوں میں بھی گیس کے کئ ذخائر موجود ہیں ۔

 

لیکن ان ملکوں سے گیس خریدنے کیلیے بھی یورپ کو ترکیہ سے ہی گزرنا پڑے گا کیونکہ ترکیہ ایشیا اور یورپ کی وہ کڑی ہے جو دو بر اعظموں کو آپس میں ملاتی ہے اور ان ملکوں سے گیس خریدنے کیلیے جو پائپ لائنیں بچھائ جائیں گی انھیں ترکیہ سے گزار کر ہی ایشیا تک بچھایا جاۓ گا اس طرح یورپ چاہ کر بھی ترکیہ کو ناراض نہیں کر سکتا ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+