میکرون یہ سمجھ گۓ ہیں کہ یورپ کی شہ رگ پیوٹن کے ہاتھ میں آ چکی ہے

روس ، یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی کچھ  ملکوں کی کوشش تھی  کہ روس اور یوکرین کے اختلافات کسی طرح  بات چیت کے ذریعے ہی  حل ہو  جائیں ان ممالک میں فرانس کا نام بھی قابلِ ذکر ہے فرانس کے صدر ایمانیول میکرون نے کوشش کی تھی کہ جنگ رک جاۓ اور روس یوکرین تنازعات ٹیبل پر ہی حل ہو جائیں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔

 

اب بھی میکرون نے زیلینسکی کو مشورہ دیتے ہوۓ کہا ہے کہ جنگ تبھی رکے گی جب یوکرین چاہے گا انھوں نے کہا ہے جنگ بندی کیلیے بات چیت میں پہل یوکرین کو ہی کرنا ہو گی آٹھ ماہ پہلے بھی میکرون نے یہی کہا تھا اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یوکرین جنگ کی مصیبت جھیل رہا ہے اور بہت نقصان اٹھا رہا ہے اس لیے اب اپنے ملک کو مزید نقصان سے بچانے کیلیے زیلینسکی کو ہی سوچنا ہو گا ۔

 

یوکرین کو ہی فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ اس وقت جنگ سے صرف یوکرین کو ہی نہیں تمام دنیا کو کئ مسائل درپیش ہیں تمام یورپ کو مہنگائ کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے اور صرف یورپ کو ہی نہیں بلکہ روس کےگیس اور تیل کی سپلائ رک جانے سے پوری دنیا مہنگائ کی مار جھیل رہی ہے روس پرانحصار کرنے والے ملکوں کا سردیوں میں کیا حال ہو گا توانائ بحران کی وجہ سے شدید سردی میں بجلی نہ ہونے سے یہ ملک سردی سے ہی جم جائیں گے ۔

 

یورپی یونین اور کئ توانائ کمپنیاں یہ خدشہ ظاہر کر چکی ہیں کہ روس کے ہاتھ میں یورپ کی جو کمزوری آ چکی ہے اور پیوٹن اس وقت یورپ کی شہ رگ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں اگر دسمبر تک یہی حالات رہے تو ان سے نمٹنا ان ملکوں کیلیے بہت مشکل ہو جاۓ گا ۔

 

یورپی ملکوں میں لوگوں کو سردی کا مقابلہ کرنے کی اور مہنگائ کا مقابلہ کرنے کی عادت نہیں ہے وہاں کے لوگ مہنگائ کی شرح میں ایک سے ڈیڈھ فیصد کمی بیشی تک کی گنجائش کے عادی ہیں لیکن اس جنگ کی وجہ سے مہنگائ سات سے آٹھ فیصد تک بڑھ چکی ہے جس سے فرانس اور سربیا اور ہنگری جیسے ملک زیلینسکی پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح جنگ ختم کرائ جاۓ ۔

user
وسیم حسن

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+