پاکستان میں جیل سے انتخاب لڑنے اور کامیاب ہونے والی سیاسی شخصیات

جیل سے انتخاب

نیوزٹوڈے:   اس سال آٹھ فروری کو ہونے والے قومی الیکشن کے لیے ایسی سیاسی شخصیات بھی انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند ہیں  جو اس وقت کسی مقدمے میں جیل میں ہیں۔ ان میں سابق وزیر اعظم عمران خان  اور ان کی جماعت کے بہت سے ایسے رہنما شامل ہیں جو اپنے خلاف مقدموں کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ 

ماضی میں کوئی اِکا دکا ایسا امیدوار ہوتا تھا جو جیل سے عام انتخابات میں حصہ لیتا تھا لیکن اس سال انتخابات کے لیے ایک درجن یا شاید اس سے بھی زیادہ اسیر سیاسی رہنما انتخابی میدان میں اترنے کی خواہش رکھتے ہیں۔  اب تک جیل سے لڑنے والے امیدواروں میں دو کے علاوہ باقی سب امیدواروں نے کامیابی حاصل کی اور انہیں اسمبلی کی رکنیت بھی ملی۔ اس ضمن میں سب سے پہلی مثال 1970ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی تھی اور اب 8 فروری کے انتخابات نے تو سارے ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں اور ایک بڑی سیاسی جماعت جیل سے انتخاب لڑنے کے لیے کوشاں ہے۔ 

1970ء میں انتخابات میں پیپلزپارٹی کے رہنماوٗں نے جیل سے نہ صرف الیکشن لڑا بلکہ کامیاب بھی ہوئے۔ ان انتخابات سے پہلے مولانا کوثر نیازی نے جماعت اسلامی سے اپنی راہیں الگ کیں اور پی پی پی میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے جیل سے الیکشن لڑا اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کوثر نیازی کو اپنی کابینہ میں شامل کیا اور انہیں وزیر اطلاعات کا قلم دان بھی دیا جو نیچے تصویر میں دکھایا گیا ہے۔

  1970ء کے انتخابات میں مولانا کوثر نیازی نے جیل سے انتخاب لڑا

پی پی پی سے تعلق رکھنے والے شمیم احمد خان اور رانا مختار نے بھی 1970ء کے انتخابات جیل سے لڑے اور دونوں کامیاب ہوئے۔ دونوں امیدوار کا تعلق فیصل آباد سے تھا جس کا اٌس وقت نام لائل پور تھا۔ 

ذوالفقار علی بھٹو کے کڑے مخالف چوہدری ظہور الہی نے بھی سلاخوں کے پیچھے سے الیکشن لڑا۔ 1977ء کے انتخابات میں چوہدری ظہور الہی پنجاب اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار تھے اور حکومت کے سیاسی عتاب کی وجہ سے جیل میں تھے لیکن انہوں نے جیل سے انتخاب میں حصہ لیا۔ 

  1977ء کے انتخابات میں چوہدری ظہوری الٰہی نے جیل سے الیکشن لڑا— تصویر: کتاب ’سچ تو یہ ہے‘

1985ء میں اٌس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے ملک میں آٹھ برس کے بعد انتخابات کروائے اور یہ الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ ان الیکشن میں سماجی شخصیات اور علاقے کے بااثر شخصیات نے حصہ لیا۔ انہوں میں سے ایک شیخ روحیل اصغر ہیں جو ابھی مسلم لیگ ن کے جانے مانے رہنما ہے ان کے چھوٹے بھائی شیخ شکیل نے بھی 1985ء کے انتخابات جیل سے لڑے اور دونوں بھائیوں نے کامیابی حاصل کی، ان میں ایک انتخاب جیت کر قومی اسمبلی اور دوسرا پنجاب اسمبلی پہنچا۔ 

1997ء میں جب سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو پی پی پی کی طرف سے آصف علی زرداری نے بھی جیل سے الیکشن لڑا اوروہ بھی کامیاب ہوئے۔ 

  سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی جیل سے سینیٹ کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے

2002 ء انتخابات میں تین امیدواروں نے جیل سے الیکشن میں حصہ لیا۔ ان میں دو کامیاب ہوئے  اور ایک اسمبلی میں نہ پہنچ سکا۔ 

  جہانگیر بدر (بائیں) اور جاوید ہاشمی (بائیں سے دوسرے) اے آر ڈی کے اجلاس میں شریک ہیں— تصویر: ڈان

2005ء میں پی پی پی کے سابق رکن پنجاب اسمبلی چوہدری اصغر کائرہ کے بیٹے ندیم اصغر نے جیل سے تحصیل ناظم کا انتخاب لڑا اور وہ کامیاب ہوئے۔ندیم کائرہ کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے جیل سے الیکشن لڑا اور ایک نئی تاریخ رقم کی اور وہ سندھ کے صوبائی دارلحکومت کراچی کے مئیر منتخب ہوئے۔ 2016ء میں ایم کیو ایم کے وسیم اختر نے بھی جیل سے الیکشن لڑا اور کراچی کے مئیر منتخب ہوئے۔ 

  ایم کیو ایم کے وسیم اختر بھی جیل سے الیکشن لڑ کر کراچی کے میئر منتخب ہوئے— تصویر: رائٹرز

اب اگلے ماہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے لیے پی ٹی آئی کے چئیر مین عمران خان، شاہ محمود قریشی، پرویز الہی، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، اور میاں محمود الرشید کے علاوہ عالیہ حمزہ اور صنم جاوید سمیت دیگر رہنما جیل سے الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ 


 

user

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+