پاکستان کے وزیر اعظم کو امریکہ کو دو ٹوک جواب دینے کی بھاری قیمت چکانی پڑ گئ

امریکہ جو اپنے سپر پاور ہونے پر بہت نازاں ہے اور اپنی طاقت سے کمزور ممالک سے اپنے مطالبات بآسانی منوا سکتا ہے ایسا ہی ایک مطالبہ اس نے پاکستان سے بھی کیا کہ کیا آپ امریکی سرکار کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ طالبان کے خلاف اینٹی ٹیلر آپریشن کیلۓ یہاں پاکستان میں رہیں ۔ عمران خان نے دو ٹوک جواب دیتے ہوۓ کہا ہرگز نہیں ہم کسی بھی حالت میں اس کی اجازت نہیں دیں گے ۔ افغانستان کے خلاف آپریشن  ISISافغانستان میں القاعدہ اور کیلۓ پاکستان اپنے اڈے اور اپنی زمین کو استعمال کرنے کی اجازت کبھی نہیں دے گا  ۔

 

اور ایسا بالکل بھی نہیں ہو گا  ۔ وزیر اعظم پاکستان کا یہ جواب امریکہ کیلۓ بہت چونکا دینے والا تھا ۔ امریکہ نے افغانستان آپریشن کیلۓ کئ ملکوں سے بات کی ہے لیکن اسے کوئ معقول جواب نہیں ملا ۔ اور اگر اسی طرح امریکہ کو مدد نہ ملی تو امریکی فوج ستمبر تک افغانستان سے واپس چلی جاۓ گی ۔ امریکہ نے ملٹری بیس کیلۓ تیسری مرتبہ پاکستان سے مدد مانگی ہے ہر دفعہ ان کا ٹارگٹ افغانستان ہی تھا ۔

 

پہلی بار 1979 ء میں جنرل ضیاءالحق سے امریکہ نے مدد لی تھی دوسری بار جنرل پرویز مشرف کو دھمکی دے کر ان سے مدد لی گئ تھی یہ 2001 ء کا زمانہ تھا ۔ اور اب عمران خان سے یہ مطالبہ کیا گیا  ۔ عمران خان کے منع کرتے ہی کئ مورچوں سے پریشر ڈالنے کی کوشش کی گئ اور عمران خان کیلۓ بہت سی مشکلات پیدا کر دی گئیں یہاں تک کہ ان سے وزیر اعظم کی کرسی بھی چھین لی گئ  بے شک عمران خان کو امریکہ کو ٹکا سا جواب دینے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی ہے

 

لیکن ان کے جواب نے نہ صرف امریکہ کو بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا  کیونکہ آج تک کسی بھی کمزور ملک نے امریکہ کو اس طرح آنکھیں نہیں دکھائیں  وزیر اعظم کے اس جواب پر امریکہ بوکھلا گیا کیونکہ اس سے پہلے روس اود چین نے مل کر امریکہ کو عالمی اور معاشی سطح پر بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ روس کے صدر نے یہ بیان دیا ہے کہ امریکہ جو کہ دنیا کی سپر پاور ہے جس کو کوئ شکست نہیں دے سکا ہے اب اس کے اندرونی حالات اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ بہت جلد یہ بھی اسی طرح ٹکڑوں میں بٹ جاۓ گا جس طرح 1991ء میں سوویت یونین پندرہ ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا ۔ پوتن کے اس بیان پر چین نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور اس بریکنگ نیوز کو اپنے اخبار کے پہلے صفحے پر لکھا ۔  

 

مزید پڑھیں: یوکرین جنگ کے ساتھ ساتھ چین اور تائوان کا ٹکراؤ
 

user

تبصرے

بطور مہمان تبصرہ کریں:
+